Tuesday, August 2, 2016

سچن جي سرڪش اڏول ڇاتي جهڪي نه سگهندي جهري سگهي ٿي.
صداقتن جي سجن جي ٽانڊي اوهان جي اک به هري سگهي ٿي.
چٻن جي منهن ۾ ٿڌي چانڊوڪي ڀري ٿي مرچون ڀلين ته ڀرڄن.
اوهان به پنهنجون ٽلون وڙهايو ڏسون اوهان جا حويليون ٿاڻا.
اوهان جا ڦٽڪا اوهان جا پترا ٻيا ڪي آڻا ٻيا ڪي ماڻا.
اسان جي موڪل اٿو ته ڪريو سڀاڻي جيڪي اوهان کان سهجي.
ائين نه ٿي جو سڀاڻي تنهنجو اگهاڙو لاشو گلين ۾ رهجي.
ڪتن جي اڳيان ڳجهن جي اڳيان خوار ڏاڍو خراب ٿيندو.
اهو ته ٿورو ويچار ظالم ڪڏھن گليءَ مان گلاب ٿيندو.
شھيد جو رت چوي ٿو قاتل ڦڙي ڦڙي جو حساب ٿيندو.


Wednesday, June 15, 2016

چھاچھرو کیا کہتا ہے

مور کبھی نہیں مرتے
تپتے ہوئے صحرا میں جلتے ہوئے سگرٹ سے کش لگاتے ہوئے جب ایک امپورٹڈ صحافی نے صحرائے تھر میں کارونجھر پہاڑ کے پاس کھڑے پاک بھارت سرحد کی طرف اشارہ کرتے ایک عام سے تھری سے پوچھا کہ ’’سنو! یہ مور کہاں سے آتے ہیں؟‘‘ تب اس کے ریگستان جیسے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک بونڈ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا ’’صاحب! مور تو اس نیلے آسمان سے آتے ہیں۔ جس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی‘‘فقیروں جیسے لباس میں کھڑے ایک اہل صحرا کا فلسفیانہ جواب سن کراس صحافی کو مسکرانا چائیے تھا مگر وہ خاموش رہا! جب کہ ریت کے بہت بلند ٹیلوں کو ہر پل ایک نئی صورت دینے والی صحرائی ہوا چلتی رہی۔قدرت کے ایک وسیع کینواس پر نت نئے نقوش بنتے اور مٹتے رہے۔ تھر کے پرندے بادلوں کو بلاتے رہے۔ اور کہیں دور سے وہ مور چلاتے رہے جو کبھی تھر کے فطرت پرست انسانوں کی نظر میں دیوتا ؤں کا رتبہ رکھتے تھے مگر اب این جی اوز کا پراجیکٹ بن گئے ہیں اور موروں کے تحفظ کے خاطر پروپوزل پیش کرنے والی این جی اوز اب صحرائے تھر کے کچھ صحافیوں کے معرفت موروں کے مرنے کی خبریں فیڈ کر وا رہی ہیں ۔
اور ایک جھونپڑی کے آنگن میں سویا ہوا بچہ اپنی ماں سے پوچھ رہا ہے کہ ’’اماں! مور کیوں مرجاتے ہیں؟‘‘ تب کلچرل زنجیروں کے نام نہاد زیورات میں جکڑی ہوئی ایک صحرائی عورت اپنا پہلو تبدیل کرتے ہوئے اپنے بچے کو سینے سے لگاتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ ’’ساون! مور نہیں مرتے۔ کبھی نہیں۔ وہ تو ہم سے روٹھ جاتے ہیں اور پھر لوٹ کر آتے ہیں‘‘اور اس دوران اس کا مریض مرد جاگ جاتا ہے اور ’’بس اب سوجاؤ‘‘ کے حکم والے لہجے میں اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ ’’سکھاں! پانی دے‘‘
پانی؛ سکھاں؛ ساون؛ صحرائے تھر اور کارونجھر کی ایک چوٹی سے اڑ کر دوسری چوٹی پر بیٹھنے والے مور ! کیا کافی نہیں ہے اس تھر کے بیان کے لیے جو پیاس پیتا ہے۔ پیاسا جیتا ہے اور پیاسا مرجاتا ہے!! اسے تو سقراط کی طرح زہر کا پیالہ بھی نہیں مل پاتا۔
’’سچائی سلگتی ہوئی ہوئی ریت جیسی ہوا کرتی ہے‘‘ ایسے اشلوک بتانے والے وہ جین پروہت کہیں نہیں جن کی غفائیں اب ان مقبروں جیسی نظر آتی ہیں جن کے جنازے انسانوں کی طرح اغوا کیے گئے محسوس ہوا کرتا ہے اور ان قدیم مراقبت گاہوں کی سفید دیواروں پر اب نوجوان عاشق اپنی محبوباؤں کے نام کا پہلا حرف کندہ کرکے چلے جاتے ہیں اور چاندنی ایک مہربان نرس کی طرح اس صحرا کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے جو دن بھر سورج سے لڑتا رہتا ہے اور رات کوایک سپاہی کے مانند جاگتی ہوئی نیند سوتا ہے۔اس صحرا کے ایک شہر ’’چھاچھرو‘‘ کے حوالے سے ایاز نے پوری سندھ سے پوچھا تھا کہ’’کیا سوچ رہا ہے چھاچھرو؟‘‘ تب سندھ کے ہونٹ سل گئے تھے۔ مگر یہی سوال ہمارا شاعر کسی صحرا کے عام انسان سے پوچھتا تو وہ اسے پتے سے بنی ہوئی بیڑی پیتے ہوئے کہتا ’’سائیں چھاچھرو کیا سوچے گا؟ اس وقت جب لو چل رہی ہے۔ مور میگھ کے منتظر ہوں اور بارش کی نشانی سمجھے جانے والے پرندے بادلوں کو چیخ چیخ کر پکار رہے ہوں اور وہ سب اس بارش کو یہ کہہ کر بلا رہے ہوں کہ تیرے بادل تو ہم بھول گئے ہیں۔تیرے وہ بادل جو ان ممالک پر برستے ہیں جہاں سیلاب آجاتے ہیں۔ اب انہیں یہاں بھی بھیجو۔ یہاں جہاں پیاس ہے۔جہاں زندگی بوند بوند کو ترس رہی ہے۔ چھاچھرو بادلوں کے علاوہ اور کس کے بارے میں سوچ سکتا ہے؟‘‘بادل آجائیں تو تھر حسن کا گھر ہوجائے اور اگر بادل نہ آئیں تو پھر تھر ایسا ہی رہے گا۔ جس میں قحط آنے کا خواب دیکھنے والیں گدھ جیسی این جی اوز راجاؤں اور مہا راجاؤں کے مانند چلتی ہیں۔ڈبل کیبن گاڑیوں میں منرل واٹر کی بوتلیں بھر کر چلنے والیں وہ این جی اوز کیا جانے کہ مور صرف بادلوں کے آنے پر نہیں ناچتے ۔ جب صحرا میں رات کسی خوابیدہ حسینہ کی صورت بکھر جاتی ہے تب بھی مور اپنے پر پھیلا اس طرح ناچنے لگتے ہیں جس طرح زندگی کے آخری ایام میں دیوانہ بن جانے والا پولش رقاص نجنسکی ناچتا تھا۔مگر ادب اور دانش کے ماڈرن عشاق نجنسکی کی پہلی اور آخری کتاب ’’ڈائری آف میڈ مین‘‘ تو پڑھتے ہیں مگر اس مور کے رقص میں نجنسکی کو تلاش نہیں کرتے جو مور ناچنے کے بعد رونے لگتا ہے اور کہتے ہیں کہ اس کی مادہ اس کے وہ آنسو صحرا کی ریت پر گرنے سے قبل پی لیتی ہے۔ اور ان آنسوؤں سے ایک اور مور جنم لیتا ہے!!
جب عقل لاحاصل عشق بن جاتی ہے تب عقیدے کا جنم ہوا کرتا ہے۔ اور عقیدے کا اصرار ہے کہ ’’مور نہیں مرسکتے۔ اگر مور مرگئے تو تھر کبھی نہیں بچے گا۔ اس لیے اپنے لیے نہیں بلکہ تھر کے لیے ان موروں کو جینا ہوگا جو انہیں وہ سکھ نہیں دے سکتا جو چڑیا گھر کے سلاخوں کے پیچھے ان موروں کو ملتا ہے جو قیدی ہوا کرتے ہیں۔جن کی وقت پر ویکسی نیشن ہوا کرتی ہے۔جنہیں صحت بخش خوراک ملتی ہے۔ جو لمبی عمر جیتے ہیں اور پھر بوڑھے قیدیوں کی طرح سلاخوں کے پیچھے مر جاتے ہیں۔عقیدہ اس لیے پرسکون ہوا کرتا ہے کیوں کہ وہ یہ بات دل سے مان کر چلتا ہے کہ ’’آزادی کی موت غلامی کی زندگی سے بہتر ہوا کرتی ہے‘‘ مگر این جی اوز شہروں کے چڑیا اور گڑیا گھروں میں قید موروں کی آزادی کے لیے آواز نہیں اٹھاتیں۔ انہیں صرف ان موروں کی فکر لاحق ہے جن کے بارے میں اہلیان تھر سمجھتے ہیں کہ یہ نیلے آسمان سے آتے ہیں اور نیلے آسمان میں چلے جاتے ہیں اور پھر نیلے آسمان سے لوٹ آتے ہیں۔جو لوگ عقیدے کے اعتبار سے یہ سوچتے ہوں کہ وہ موروں کے دم سے زندہ ہیں انہیں موروں میں پھیلی ہوئی وبا کے بارے میں کوئی فکر کیوں ہوگی؟
وہ مور جن کا احترام تھر کے سارے لوگ کیا کرتے تھے۔ اب تو انہیں بھوکے انسان بھون کرکھاجاتے ہیں مگر ایک وقت ایسا بھی تھا جب مور آزاد پرندوں کی صورت اہلیان تھر کے گھروں پر اترتے تھے اور جس صحرائی گاؤں میں ان کا بسیرا ہوا کرتا تھا اس گاؤں کے لوگ انہیں اپنا مہمان تصور کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ٹھاکر جو اب تھر میں نہیں بستے وہ موروں کی خوشی کے ساتھ خدمت کیا کرتے تھے۔ مگر اب تھر میں گھس آنے والے لوگوں نے صحرا کے ہر حسن کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے اور این جی اوز کے معرفت چل نکلنے والی یہ مہم تھر کے موروں کوبچانے کے بجائے انہیں ماضی کی مورت بنا کر چھوڑے گی۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ موروں کو بچانے کے لیے میڈیا میں ایک مہم شروع کرنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے صحرا کے ان انسانوں کو بچانے کی کوشش کرنا جو بچے گئے تو پھر مور کبھی نہیں مریں گے۔کیوں کہ مور انہیں اس لیے عزیز نہیں کہ وہ ڈالر کمانے کا ذریعہ ہیں۔ مور ان لوگوں کو اس لیے پیارے ہیں کیوں کہ وہ مور ہیں!! وہ مور جن سے محبت کرتے ہوئے مائیں اپنے بچوں کے نام ’’مور‘‘ رکھتی ہیں۔ اور شادی بیاہ کے سادہ فنکشنس میں جست کے تھال کو ڈھول بنا کر بجاتی ہیں اور یہ لوک گیت گاتی ہیں کہ:
’’اے مور !
میرا دل میرے اپنوں کے ساتھ جڑ ا ہوا ہے
اے مور دعا کرو!
میرے خالی جھولے میں
میرے بیٹے جھولیں
اور میری ماٹی ہمیشہ دودھ سے بھری رہے!!‘‘
ایک تو یہ مور صدیوں سے فطرت کے بدلتے ہوئے تیوروں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ رکھتے ہیں اور دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ ان موروں کا ہمیشہ سے تحفظ کرتے آئے ہیں وہ لوگ جو اب سنگین حالات کی وجہ سے اپنا تحفظ نہیں کرسکتے۔مگر کیا یہ بات سمجھ آسکتی ہے ان انسانوں کو جو نہیں سمجھتے کہ مور تو ایک ایسا پھول ہے جو تھر کے درخت کی شاخوں پر کھلتا ہے۔ اس پھول کو تحفظ صرف اس صورت میں مل سکتا ہے اگر وہ درخت سلامت رہے جس کا نام تھر ہے۔وہ تھر جو جہنم بن گیا ہے ان اہلیان تھر کے لیے جو رقم ہونے والی تاریخ سے بھی قبل بسا کرتے ہیں اس تھر میں جو ان کے آباؤ اجداد سے لیکر ان تک ایک تحفظ کی دیوار کی صورت موجود رہتا آیا ہے۔ جس طرح سکھ بھرے حالات غاصب قوتوں کو دراندازی کی دعوت دیتے ہیں اسی طرح دکھ بھرے حالات انہیں ایسے حملوں سے دور رکھا کرتے ہیں۔ اس لیے تھر کی تاریخ کے وجود پر غیر حملہ آوروں کے زخم نہیں ہیں مگر تھر جدید دور میں دکھوں کی بستی بن گیا ہے۔ جس تھر کو صحرائی طوفان کچھ نہیں کرپائے اس تھر کو جدید دور نے دفن کردیا ہے۔
اور یہ این جی اوز اس مذار تھر کی مجاور ہونے کی کوشش میں مصروف ہیں جس تھر کو کی ریت کا ہر ذرہ محبت کا وعدہ بن کر چمکتا ہے۔ جس تھر میں موروں کو کمائی کا ذریعہ نہیں بلکہ محترم محبت کی عظیم علامت سمجھا جاتا ہے۔ جس تھر کے کسی گمنام عوامی شاعر نے تھری زبان میں یہ شعر لکھا تھا کہ:
’’کارونجھر دی کور مریں تے ماگہیں نہیں
متھان ٹہونکے مور تہ ڈونگر لاگے ڈیپتو‘‘
یعنی: ’’ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس کارونجھر پہاڑ کو مت چھوڑنا
جس پر کھڑا مور جب کوکتا ہے تب پورا پہاڑ چراغ کی مانند روشن ہوجاتا ہے‘‘
ایسے تھر میں کو صرف موروں کی مقتل بنا کر پیش کیے جانے والی یہ حساس صحافت آخر موروں کا کیس اٹھا کر اس تھر کے کیس پر پردہ کیوں ڈال رہی ہیں جس تھر کے باسی بہت دکھی ہیں۔ جو اہلیان تھر اس طرح جی رہے ہیں جس طرح کوئی زنجیروں میں جکڑا ہوا قیدی جینے کی کوشش کرتا ہے۔اور کوئی بھی سرزمین اپنے طور کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کو شناخت دیتے ہیں ان میں بسنے والے!
اس لیے تھر صحرا نہیں بلکہ صحرا نشین ہیں۔ وہ ساری قوتیں جو موروں کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں وہ اگر اہلیان صحرا کے دکھ دور کرنے میں مصروف عمل ہوجائے تو مور خودبخود خوش ہوجائیں گے!!۔
مگر ان نیم طبیبوں جیسے سیاسی حکیموں کو کون سمجھائے کہ پھولوں کا تحفظ تب ہی ممکن ہے جب درخت مضبوط اور صحتمند ہو۔ اس لیے موروں کو نہیں بلکہ ان انسانوں کی مدد کریں جو صدیوں سے موروں کا تحفظ کرتے آئے ہیں۔ جن کے لیے مور پرندہ نہیں بلکہ ایک ایسے پیار کا مظہر ہے جس پیار اورمیں پوجا میں کوئی فرق نہیں ہوا کرتا۔
اس لیے موروں کے موت پر ماتم کرنے والی میڈیا سے صرف اتنی التماس ہے کہ وہ ان اہلیان تھر کی زندگی میں بہتری لانے کے سلسلے میں آواز بلند کرے جو موروں کے اصل محافظ ہیں۔ اگر وہ لوگ بچ گئے تو مور نہیں مریں گے۔ صرف روٹھ جایا کریں گے اور روٹھنے کے بعد خود ہی واپس آجایا کریں گے۔ اس عقیدے کو بچانے کے لیے جس کی شاخ پر عقل کا پھل بھلے پیدا نہ ہو لیکن اس پر عشق کا پھول ضرور کھلتا ہے!!

Tuesday, June 14, 2016

ماروي جي ملڪ ملير ۾ ڀٽوازم جي هڪ پيروڪار جو نئون جنم
اڄ جڏهن مون صبح سوير پنهنجي گهر جي مک دروازي مان ٻاهر قدم رکيو ته مونکي اڄ واري صبح ۽ ڪاله واري صبح ۾ وڏو فرق محسوس ٿيو، مون کي اڄ ٻاهر جي هوا جي ايندڙ هر ننڍي وڏي لهر مان اهي سرگوشيون ٻڌڻ آيون جيڪي مون ننڍپڻ ۾ پنهنجي ڪلهي تي ٽن رنگن ڳاڙهي، ڪاري ۽ سائي جهنڊي کي جهولائيندي پنهنجو پاڻ سان سرگوشيون ڪنديون هئس.....ماروي ملير جي..بينظير بينظير،اڄ ته ٿي وئي ڀٽو ڀٽو....! اڄ مون سان ملي گذرندڙ هوا جو هر جهوٽوبس اهو ئي چوي پيو ته...ماروي ملير جي، بينظير بينظير.......مون جڏهن پهريون ڀيرو ”جئي ڀٽو“ جو نعرو هنيو هو ته مون کي ان نعري ۾ آيل لفظ ڀٽو جي خبر نه هئي..بس ان نعري ۾ هڪ سحر هو، هڪ ڪشش هئي، هڪ ڇِڪ هئي ۽ هڪ جادو هو......اهو سحر هر ايندڙ نسل ۾ پاڻ مرادو منتقل ٿي رهيو آهي.....بلڪل هڪ اهڙو سحر جنهن جي خود هڪ وڏي دنيا آهي،جنهن کي هتي ڪجه لفظن ۾ بيان نٿو ڪري سگهجي،اڄ آئون ان نعري جي سحر هيٺ ئي پنهنجي سياسي زندگي جي نئين جنم جي شروعات ڪريان پيو، مهنجي اندر ۾ جيڪو ڀٽو ازم ويٺل آهي ان ڀٽو ازم جي سحر کي آئون صحرا جي خوشبو سمجهان ٿو، اها خوشبوءَ جنهن جي هر احساس ۾ هڪ امنگ، هڪ اميد، هڪ جوش، هڪ جذبو، هڪ ارپنا ۽ هڪ جدوجهد جو تسلسل شامل آهي، آئون اڄ ضلعي ڪائونسل جي ميمبر طور قسم کڻي رهيو آهيان، منهنجو اهو قسم صرف روايتي قسم ناهي، هن قسم ۾ هڪ وفا به شامل آهي ته هڪ وچن به.....وفا ان سحر سان...وفا ڀٽوازم سان..وفا شهيد راڻي بينظير ڀٽو سان، وفا شهزادي چيئرمين بلاول ڀٽو زرداري سان....۽ وچن ٿر جي ماروئڙن سان، ماروي جي ملڪ ملير جي ماڻهن سان...ته آئون ڀٽوازم سان وفا ڪندي توهان جي لاءِ پنهنجي وس آهر جيڪا به خدمت ڪري سگهيس ان ۾ ڪا به ڪوتاهي نه ڪندس، آئون چيئرمين بلاول ڀٽو زرداري جو ٿورائتو آهيان جنهن مون جهڙي غريب جيالي تي اعتماد ڪندي ٿر جي ماروئڙن جي خدمت لاءِ چونڊيو آهي، ان سان گڏوگڏ پيپلزپارٽي ٿرپارڪر جي اڳواڻن ڊاڪٽر مهيش ملاڻي، فقير شير محمد بلالاڻي ۽ سشيل ملاڻي جو به ٿورائتو آهيان جن جي رهنمائيءَ منهنجي لاءِ مشعل راه آهي.

Sunday, June 12, 2016

جهان کي ڏيو مبارڪون،اسين پيا ڪاهيندا اچون،

  1. اکبر لاکھو

    اکبر لاکھومحفلین

    جهان کي ڏيو مبارڪون،اسين پيا ڪاهيندا اچون،

    نون سُرن ۾ زندگيءَ جا گيت ڳائيندا اچون.

    حيات جو هي حڪم آ،ته ڊاهيو پوءِ ٺاهيو،

    دٻاءَ ڦر رهزنيءَ جا کيل سڀ بگاڙيو،

    خزان کي جو پناهه ڏئي،سو باغ ئي اجاڙيو،

    خزان سان گڏ،خزان جو به پيا گهر جلائيندا اچون.


    اجهو هونڪتو ٻهڪندڙ جلوس آفتاب جو،

    پيو آ ليڙون ليڙون ٿيو ڪفن انڌيري رات جو،

    نشانِ نظر اچي پيو منزلِ نجات جو،

    ۽ ٻوڏ جيان وڌي پيو هي قافلو حيات جو،

    قيامتون قيامتن پٺيان اٿاريندا اچون.


    جوسج آسمان تي هو زمين تي جڳمڳائيندو،

    ۽چنڊ به لهي اچي قدم تي سِرُ جهڪائيندو،

    بهشت جنتن جو خواب نيٺ به لهرائيندو،

    بهار نيٺ مرڪندو ۽ حسن گيت ڳائيندو،

    ڏسو ته آسمان کي اڄ زمين تي لاهيندا اچون.
    رسول بخش پليجو​
    پسندیدہ پسندیدہ × 1

    Friday, June 10, 2016

    ائے. .... میری قوم تیرے جانچنے کا پیمانہ کیا هے. .... ؟؟

    2008 میں جب میں نے حکومت سنبھالی اور وہ مکمل میری حکومت نہیں تهی ایک اتحادی ایک مخلوط حکومت تهی میں صرف قیادت کر رہا تها. .. پنجاب کا اختیار ن لیگ کے پاس ، خیبر پختون خواہ کا اختیار اے این پی کے پاس ، سندھ میں ادها اختیار ایم کیو ایم کے پاس ، بلوچستان میں اختیار جو جیتا سب کے پاس تها.

    مرکز میں اختیار پیپلزپارٹی ، اے این پی ، جے یو آئی ، ایم کیو ایم اور ارکان فاٹا کے پاس تهے . ...

    وہ میری حکومت تو نہیں تهی ہاں میں اسکو لیڈ کر رہا تها. .... میرے پاس دو تہائی اکثریت نہیں تهی ، نہ بهاری مینڈیٹ اور نہ هم سنگل لارجسٹ پارٹی تهے. .. میری کمزوری کی حالت یہ تهی کہ کسی بهی بیرون ملک اہم دورے سے پہلے میں صوبائی اسمبلیوں سے اپنے پر اعتماد کی قرارداد پاس کر وا کر جایا کرتا تها ہاں یہ بهی ریکارڈ هے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی سے اعتماد کی قرارداد کبھی نہ آئی. ..

    اس کے باوجود میں نے سفارتی محاز پر ملک کو محفوظ رکها ، بمبئی حملوں پر تحفظات کے باوجود ہندوستان کا پانچ سال موقف رہا " دوست بدلے جا سکتے ہیں ہمسائے نہیں "
    اور افغانستان سے آواز آتی تهی " پاکستان ہمارا اسلامی برادر ملک نہیں بلکہ جڑواں بهائی هے "

    میں نے دو سرحدوں سے ملک کو عوام کو اور افواج پاکستان کو محفوظ رکها میں نے زبان سے جنگ جیتی. .... تمہارا بارود محفوظ رکها

    آجکل پاکستان میں پہلے سے ذیادہ مقبول فوج اور مجھ سے بہت ذیادہ مضبوط حکومت هے

    آج افغانستان کہتا هے برادر اسلامی ملک کیسے کہتے ہیں پاک افغان تعلقات صرف دو ریاستوں جیسے هیں. ... اور ہندوستان همارے منہ پر آئے روز کالک مل رہا هے.

    ہندوستان  ، ایران اور افغانستان ایک ساتھ کهڑے هیں

    اور هم

    دنیا کی برادری میں...... اکیلے کهڑے هیں.

    اے میری قوم تیرے جانچنے کا پیمانہ کیا هے. ....؟ پار

    Thursday, June 9, 2016

    آکاش انصارئ

    خانداني تون يا مان....!!؟؟؟
    .................................
    اچ! هلي ٿا سنڌ کان شجرو پڇون!
    خانداني تون، يا مان!؟

    منهنجا وڏا،
    هاري هئا، ڪنڀار هئا، لوهار هئا،
    رازا هيا، واڍا هيا، جھانگي هيا، جونجهار هئا،
    ڪلهه جڏهن هن ديس تي مانگر مڙيا،
    منهنجا وڏا گڏجي وڙهيا،
    ڪن ترارين کي وڃي پاڻي ڏنا،
    ڪن وڃي ڀالا گھڙيا.
    ڪن ڪهاڙين کي ٺپيو،
    ڪن رنيءَ جي ڪوٽ کي،
    پنهنجي لهوءَ سان پئي لپيو،
    ڪنهن روپلي جو، روپ ڌاري،
    ڪنڌ ڪاتر ساڻ، قاتل جو ڪپيو،
    ڪنهن وري هوشوءَ جيان.
    داءُ هر دشمن سندو،
    پنهنجي جوشن تي جھپيو.
    تنهنجا وڏا..! ڀوتار هئا،
    رئيس هئا، خان ۽ سردار هئا،
    جن غاصبن جي گر لڳل،
    گھوڙن سنديون ميڙيون لڏون،
    خوش ٿي کلي، تن کي هنيا پئي کرکرا.
    مارين جون، تن ڪيون پئي مالشون،
    ڪنڌ قدمن تي رکي، ڪله ڪيون پئي ڪرنشون،
    ڏينهن ۾ ڏه ڏه دفعا،لانگ بوٽن کي لڪي،
    پنهنجي زبانن سان ڪيون پئي پالشون.
    منهنجي وڏن کي ڏوهه ۾، ترم، تعزيرون مليون،
    تنهنجي وڏن کي ڊوه ۾ ، جس ناما، جاگيرون مليون،
    جنهن ڪري اڄ تون وڏيرو، خان ٿو سڏجين ميان!

    اچ! هلي ٿا سنڌ کان شجرو پڇون!
    خانداني تون، يا مان!؟

    اڃ به پوڙهو پيءُ منهنجو،
    هر ۾ هڪڙي هٿ سان،
    ڌرتي جو،
    سينو ٿوسهڪائي سگھي،
    ۽ منهنجو لوهار ڀاءُ،
    لوهه سان،
    ٿو لوهه جي لهجي ۾ ڳالهائي سگھي.
    اڃ به مٺڙي ماءُ منهنجي،
    هڪ رليءَ جي پڙ مٿي،
    سارو ستارن سان جڙيل،
    ٿي آسمان لاهي سگھي!

    ڳوٺ ۾ اڄ پڻ هلن ٿيون ڳالهيون،
    تنهنجي ابي، شاديءَ سوا،
    ست ست سريتون پاليون،
    تون خبر...ڪهڙيءَ منجهان!؟
    اچ! هلي ٿا سنڌ کان شجرو پڇون!
    خانداني تون، يا مان!؟
    ...(آڪاش انصاري)

    Tuesday, June 7, 2016

    سمجھدار نوکر


    🔵🔴🔵🔴🔵🔴🔵🔴🔵🔴🔵🔴🔵🔴🔵🔴🔵🔴🔵🔴🔵🔴🔵
    🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾
    ايک بادشاہ نے اپنے تمام وفادار ملازمین کو کھانے کي دعوت پر مدعو کيا، جب دستر خوان بچھايا گيا اور بادشاہ اپنے تمام تر جاہ و جلال سے انکے سامنے آ کر بيٹھا۔ اسي دوران خادم ايک تھالي ميں سالن لے کر آيا بادشاہ کے رعب و دبدبے کي وجہ سے اس پر کپکپي طاري ہوگئي جس کي وجہ سے تھوڑا سا سالن چھلک کر بادشاہ کے کپڑوں پر بھي گر گيا۔ بادشاہ نے اسکي طرف تيز نظر سے ديکھا اور اسکي گردن اڑانے کا حکم دے ديا۔

    جب خادم نے يہ حکم سننا تو پوري تھال بادشاہ کے سر پر الٹ دي بادشاہ نے زيادہ غضبناک ہو کر کہا گستاخ يہ کيا حرکت کي تم نے؟کہنے لگا بادشاہ سلامت ميں نے تو آپ کے اکرام اور آپ کو اس عار سے بجانے کيلئے کيا ہے جو لوگ آپ کي طرف منسوب کرينگے جب وہ ميرا جرم جسکي وجہ سے مجھے قتل کيا جارہا ہے سنيں گے اور کہيں گے۔

    کہ ايک غلام کي اتني سي غلطي اور اسکي اتني بڑي سزا ، غلطي بھي کيسي جو بغير قصد کے ہوئی ۔ پھر تو آپ کو ظالم و جابر کا لقب ديں گے۔اسي وجہ سے ميں نے آپ پر سالن ڈال ديا، کہ جب وہ ميري غلطي سنيں تو آپ کو ميرے قتل کي وجہ سے ملامت نہ کرسکيں ، يہ سن کر بادشاہ نے اپنا سر جھکا ليا اور کہا۔ اے بري حرکت کرکے اچھا عذر پيش کرنے والے ہم تمہاري بري حرکت اور اس بھاري جرم کو تمہارے اچھے عذر کے بدلے معاف کيا اور تمہيں اللہ کے واسطے آزاد کيا۔
    🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿
    ↔↔↔↔↔↔↔↔↔↔↔↔↔
    🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾🌿🌾

    ھي رات رڳو آھي سانجھي کان سحَر تائین
    ساھن جو سفر رھندو ساجن سان سفر تائین

    ھي روح تہ ھو تاڙو تون ڏور ڪڪر وانگي 
    پھچي بہ ڀلا ڪیئن ھا ھي پیاس پلر تائین

    تون ٿالھ ڀري گلڙا پوڄا جي لئہ نڪتین
    ڪیڏي نہ ڦھلجي وئي سرھاڻ مندر تائین

    واقف نہ ھئس آئون ڪنھن سخن طرازي کان
    ڪي نیڻ وٺي آیا ھن ڏات نگر تائین

    دردن جي طوالت جو ھڪ ھي بہ سبب آھي 
    پھتي نہ ڪڏھن منھنجي ڪا آھ اثر تائین

    چئو ڇا تہ ٻڌایان مان جیون جو سفر ڪھڙو
    تنھنجي ئي پڌر کان ھو تنھنجي ئي پڌر تائین

    مان پاڻ وساري ٿو خود نانءُ ڇڏیان چندر
    اي یار سمائین ھا ایڏو نہ اندر تائین —

    استاد بخاری

    سنڌي شاعري تي خوش آمديد


    سنڌي شاعري (Sindhi poetry)
    Home Sufism poetry Sindhi Poets
    استاد بخاري
    1

    ،چانھ ڪوسي چڱي، آب ٿڌڙو هجي

    چانھ ڪوسي چڱي، آب ٿڌڙو هجي
    گرم جذبو هجي، نرم گفتو هجي؛

    قول ڪيڏو حڪيمن جو سهڻو سٺو
    جو به دلهير ٿئي تنهنجي لئه دوستو

    عرق انگور جو، صوف تازو هجي
    وقت جي رهبري، رهزني ريت جو

    هي ته هر پريت کي هوندو آھي پتو
    ڪاٿي نعرو لڳي ڪاٿي نخرو هجي

    رنگ سارا سُٺا ڪي به ناهن ڪسا
    نيڻ ناسي - عقابي، گلابي وڳا

    غير ڪارو، ڦِڪو، يار ڳاڙھو هجي
    زندگي حسن آ، تندرستي هجي

    تندرستي به آجي ۽ سهنجي هجي
    ڀر ۾ محبوب استاد ڀيڙو هجي


    ******
    استاد بخاري


    2

    گيت

    هير گهلندي وڃي
    ماڪ پوندي وڃي
    رات ٺرندي وڃي
    ياد تنهنجي اچي
    ننڊ ڦٽندي وڃي
    ڇا ڪريان! ڇا ڪريان

    چنڊ ڏاڍو وڻي
    نيڻ مون ڏي کڻي
    هانءَ ۾ چڪ هڻي
    تانگهہ توڏي تڻي
    .....ڇا ڪريان

    ڳوٺ وارا سمهن
    کيت، ٻارا سمهن
    چنڊ، ٻارا سمهن
    ياد تنهنجي اچي
    سُور سارا اٿن
    ڇا ڪريان

    ڪانگ ڀت تي لنوي
    گرهه هٿ مان ڪري
    شل نه ڪا اک ڦري
    ياد تنهنجي اچي
    باهه ڀڙڪي ٻري
    ڇا ڪريان

    ساز وڄندا رهن
    گيت نچندا رهن
    درد دکندا رهن
    ياد تنهنجي اچي
    نيڻ ٽمندا رهن
    ....ڇا ڪريان

    ڇو نه عيدون اچن
    رنگ خوشيون رچن
    محب موجون مچن
    ياد تنهنجي اچي
    ساهه ٿڌڙا کڄن
    ڇا ڪريان، ڇا ڪريان ڇا ڪريان، ڇا ڪريان

    ******
    استاد بخاري


    3

    هن دل کي بره بڇاڻي ڪو


    هن دل کي بره بڇاڻي ڪو
    شعلو نه سهي ٽانڊو ئي سهي

    مان ڀانيان مونکي کي ڀائي ڪو
    سهڻو نه سهي ڪوجهو ئي سهي

    ها چاهيان ٿو ڪو چاه ڪري
    دل سان نه سهي دوکو ئي سهي

    ڪو مُرڪي مُرڪي شرمائي
    سچ پچ نه سهي، نخرو ئي سهي

    ڪو ڀر ۾‌ اچي دل پرڀائي
    ڀوسو نه سهي گفتگو ئي سهي

    ها پيار ته پنهنجي وس ناهي
    همدردي جو جذبو ئي سهي

    استاد جو جذبو ڳڀرو آ
    توڙي جو پِنڊو پوڙهو ئي سهي

    هو مون به مٺا هڪ پيار لڌو
    ساڀيان نه سهي سپنو ئي سهي

    *****
    استاد بخاري

    4

    جانِ جانان بنان

    سونهن سرخي ٻسي، تيل، ڪنگا ڪنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    ويس ورتا به مون، هار پوتا به مون، پريت پورهيو ڪري
    ويس ڪارا ڪيان، هار ڇوڙيان ڇنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    مان لڇان پئي لڇان، مان پچان يا مچان، تن اَمِي سُمهه سُکي
    ڇو ته ڏاجا ڏِمان، تو ته ناهن ڏنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    قسمتون، ڪوششون، همتون هجتون، دوستيون دشمنيون
    هانوَ هڙني ڇنا، نانوَ ڪهڙا ڳنهان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    پيار برسات آهي، بخاري لڳاتار برکا وسي
    پيار خيرات ناهي، ڏيان يا پنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    (آستاد بخاري)

    5

    !ڇا ٿو ڀائين


    منهنجي باري ۾ او سائين
    ڇا ٿو ڀائين

    توکان هڪڙو ڏينهن ڇڄان ٿو
    ڏينهن انهي کي سال چوان ٿو
    پر جي وڇڙي ورهَ لڇائين
    ڇا ٿو ڀائين

    تنهنجي درشن لاءِ سڪان ٿو
    لک شڪرانا منهن ته ڏسان ٿو
    پر جي پنهنجي ڇاتيءَ لائين
    ڇا ٿو ڀائين

    غيرن سان گڏجاڻي تنهنجي
    جان جلي ٿي جاني منهنجي
    پر جي تن جو کائين، پائين
    ڇا ٿو ڀائين

    واقف آ استاد بخاري
    تو فرمائي دلڙي ٺاري
    پر جي منهنجو يار سڏائين
    ڇا ٿو ڀائين

    (استاد بخاري)

    6

    محبت ۾ درياهه وانگي وهان ٿو

    هٿين سکڻو ساحل جيان توڙي رهان ٿو
    محبت ۾ درياهه وانگي وهان ٿو
    نه سمجهين ته ناچيز، سمجهين ته سڀڪجهه
    لهان ٿو ته سهڻا، گهڻو ئي لهان ٿو
    تون منهنجي ضرورت، مان تنهنجي ضرورت
    تون مونسان ٺهين ٿو، مان توسان ٺهان ٿو
    تون مهراڻ مستي، مان هالار هستي
    پرين تنهنجي پاڙي ۾ ريڌو رهان ٿو
    بنا قرب ”استاد“ ڪک آهي ڪاتي
    پرين پيار آهي ته پاهڻ سهان ٿو


    ****
    استاد بخاري

    7

    ..دل جي ڪاروبار جو هڪ قاعدو آهي


    دل جي ڪاروبار جو هڪ قاعدو آهي
    ڪيترو نقصان ٿي ته به فائدو آهي

    عشق گھاڻي ۾ يا ڦاسي گھاٽ تي گرجيو
    موت جي منهن ۾ مگر مانائتو آهي

    جي مران، جيئان، مران جيئان سوين ڀيرا
    هر دفعي تو سان وفا هي واعدو آهي

    رعب جي گھر ۾ گھڻو پر ڪهڙي ڪم جو آ
    قرب سچي جو ڪڻو ڪارائتو آهي

    سونهن تي سچ تي ۽ سنڌ تي او امر شاعر
    شعر تو جيڪو لکيو شانائتو آهي

    تجلو ٿيو تارو کڙيو، تارو ڪِريو بس
    زندگي ۽ موت اهڙو حادثو آهي

    سنڌ ڌرتيءَ سان ۽ سرتيءَ سان بخاريءَ جو
    ڪجھ بلالي ڪجھ لطيفي رابطو آهي

    ****
    استاد بخاري

    8

    (نه ڪم نبريو نه غم نبريو (استاد بخاري

    نه ڪم نبريو نه غم نبريو، جو نبري ويو سو دم هوندو
    جو نِکري پيو سو سچ سمجهو، جو وِکري ويو وهم هوندو

    تکوگهوڙو ڊُڪي ڪيڏو، نظر هَسوار جي اڳتي
    زمانو تيز تنهن کان تيز تر، پنهنجو قدم هوندو

    اسان جي شاعري کي انقلابي دور ۾ کڻجو
    جڏهن هر لفظ پرچم، هر غزل اونچو عَلم هوندو

    ”تَشا“ واري لِڪل تقدير، نه تو سمجهي نه مون سمجهي
    جي ڪجهه سمجهي ته هي سمجهي؛ عمل اَحسن اُتم هوندو

    ڪا ڪِٿ ليلا ڪو ڪِٿ مجنون، ڪو ڪِٿ گهرجي ڪو ڪِٿ گهربل
    ڪا ڪنهن جي لئه اهم هوندي، ڪو ڪنهن جي لئه اهم هوندو

    بخاريءَ کي اوهان سڀني کان، يارو مان گهڻو ڄاڻان
    ڀلو جي ڀائرن سمجهو ته، رهجي ويو ڀرم هوندو

    (استاد بخاري)

    9

    (جيءُ جنهن کي چيم، (استاد بخاري

    جيءُ جنهن کي چيم، جهڻڪ تنهن کان مليم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر
    جان جن تي ڏنيم سي نه ڪانڌي ٿيم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    ڪيس ڪيڏا ڪيئي حُسن جي انڌ تي
    باهه ٻاري وڌءِ هانءَ جي هنڌ تي
    غير جي پنڌ تي پير تنهنجا ڏٺم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    پيار جي ڇانو ۾ ڪي ٻه ساٿي مليا
    جون جي سج جيان ڳوٺ وارا جليا
    خار کائي کِليا هي خبر جا ٻُڌم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    ڪا به نازڪ بدن نوجوان نازنين
    کنڊ جهڙي مِٺي، چنڊ جهڙي حسين
    دلربا دلنشين جي ڏکاري ڏٺم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    گيت جن لئه "بخاري" پڪاري لکيم
    سي ڌتاري ڌتاري ڌڪاري ويم
    نيڻ جن لئه ڀنم سي مٿان پئي کليم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    (استاد بخاري)

    10


    ...پيار، درياهه آ


    پيار، درياهه آ، درياهه به لَٽجي ٿو وڃي
    نيٺ انسان آ، انسان به مَٽجي ٿو وڃي

    مان مڃان ٿو ته سڀين پارين سڄڻ سون آهي
    هي غضب ٿيو جو سچو سون به ڪَٽجي ٿو وڃي

    بعضي بندوق شڪاريءَ جي ڇُٽي ٿي پٺتي
    جو ڦَٽي ٿو ڪڏهن پاڻ به ڦَٽجي ٿو وڃي

    حُسن آ باز، مگر عشق وڏي آفت آ
    مون ڏٺو آ ته ڪڏهن باز به جهَٽجي ٿو وڃي

    چند هَٽندي ئي وڏي ويرَ هٽي ويندي آ
    گهُورَ گهٽجي ٿي ته ”استاد“ به گهٽجي ٿو وڃي


    ***
    استاد بخاري

    11

    ..هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا


    هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا ، ٻيو تو مان نٿو ٿئي ڍئو سهڻا
    اهي ڀهڪيون ڳالهيون بخش ڪجاء مونکي محبت جو ٿئي مئو سهڻا

    هڪ عمر ۾ توکي ڇا ڏسندس هڪ عمر ۾ توسان ڇا کلندس
    مونکي عمريون هجن ها سئو سهڻا

    هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا، ٻيو تو مان نٿو ٿئي ڍئو سهڻا
    اهي ڀهڪيون ڳالهيون بخش ڪجاء مونکي محبت جو ٿئي مئو سهڻا


    تولاء روئان چئين ٿو روئڻو، تولاء سڪان چئين ٿو سڪڻو
    جيڪي چوڻو اٿئي پيو چئو سهڻا

    هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا، ٻيو تو مان نٿو ٿئي ڍئو سهڻا
    اهي ڀهڪيون ڳالهيون بخش ڪجاء مونکي محبت جو ٿئي مئو سهڻا
    *******
    استاد بخاري

    12


    محفل حسين تنهنجي تنهنجا حسين ماڻا


    محفل حسين تنهنجي تنهنجا حسين ماڻا
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا

    ڏاڍا وڏا شڪاري آيا شڪار ٿي ويا
    آيا هئا خريدڻ خود بي مُلها کپي ويا

    هي ڪاروبار تنهنجا ٿا نيڻ ڪن نماڻا۔
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا

    اي ڪاش تو اچين هان مان ڪانگ ٿو اُڏايان
    اهڙي جڳهه ڪٿي جو توکي کڻي ويهاريان۔

    ڇاتي ڪيان وڇاڻو ٻانهون ڏيان وهاڻا
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا۔

    هڪ ڳالهه هيء حياتي استاد وئي اجائي
    ٻي سوچ زندگاني ستبار ٿي سجائي

    هڪ پيار يار ڄاڻا ٻي ڪار ڪانه ڄاڻا
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا۔

    *****
    استاد بخاري

    13


    ،جيوت جي سنگيتن جهڙي جهانجهه وڳي هڪ رات


    ،جيوت جي سنگيتن جهڙي جهانجهه وڳي هڪ رات
    .رَڳ رَڳ ۾ پئي نينهن نچايو عمر سڄي هڪ رات

    ،جهولڻ جهومڻ، موجون ماڻڻ جي هُوءِ هڪڙي رات
    .وڇڙي وئي پر چَمڙي وانگر، روح کي چنبڙي رات

    ،جڳ جڳ جا جذبات کڻي اهڙي ته لنگھي هڪ رات
    .ويندي ويندي يار اسان جي عمر ونگي هڪ رات

    ،ڇا ته اڱڻ تي بادل، کنوڻيون کيڏيون ساري رات
    .رِم جِهم رِم جِهم برسي مِٺڙي بوسن جي برسات

    ،ڏينهن تي آهي شينهن گجي ٿو، رات به ناهي سانت
    .ڏيڏر، تِڏيون، چٻرا، چمڙا باتيون ڀانتين ڀانت

    ،ڏينهن تتو ڄڻ صبح ٿڌو ۽ ڀنڀ سُمهڻي باک
    .چاهت آهه ته چيٽ لڳي ٿو پوهه ڪتي ويساک

    ********
    استاد بخاري

    14


    ،دل ته چوي ٿي جُڳ جُڳ جيئان، موت ڏياريان مات


    ،دل ته چوي ٿي جُڳ جُڳ جيئان، موت ڏياريان مات
    !ڪاٿان او استاد بخاري، ايڏي آڻيان ڏات

    .دل ته چوي ٿي پيار هجي ٻيو تنهنجي سونهن - سنوار
    .موت وتي ٿي ڪاتيون لايون ڪاسائي جي ڪار

    ،دل ته چوي ٿي پيلو، نيلو گول بنايان لال
    .جيئو جيئڻ ڏيو پي ۽ پياري ماريان مُونجهه ملال

    ،دل ته چوي ٿي پورب، پڇّم ورڇيان محبت مال
    !ايڏو قُرب ڪمال ڪٿي، هي حاضر جهڙو حال

    ،مينگھ هجان ها، برسي برسي بَرّ ڪاريان ها باغ
    .سج هجان ها، اونداهيءَ جا روز ڌئان ها داغ

    ،محبت ريءَ مزار "بخاري" محبت ساڻ بزار
    !هڪڙي سونهن هجي سيني ۾، هُوندا هيج هزار

    *****
    استاد بخاري

    15


    اسان هون سپاهي، او ڀٽائي، تنهنجي سنڌ جا


    اسان هون سپاهي، او ڀٽائي، تنهنجي سنڌ جا
    درازيءَ جي ديس جا، سنائيءَ جي سنڌ جا

    عزم عنايت سچ سگھارو، برک بلاول، حيدر پيارو
    اِهي پيارا پيارا ماڻهو، پياري پياري سنڌ جا

    ڪوٺَ ڪنائي پورهيت جاڳيو، جرئت جاڳي، رتَ ستَ جاڳيو
    جاڳي پيا جيالا سارا، هاري ناري سنڌ جا

    ڌرتيءَ ڄايا پيا گڏجي سڏجي، سچ جي سڏ تي پرچي سرچي
    جوڙيون پيا نِڪورا خاڪا، آجي آجي سنڌ جا

    سورج وانگي چمڪي سنڌڙي، جُڳ جُڳ ۾ جيئي سنڌڙي
    هجن هر زبان تي نعرا، صبح، سانجھي سنڌ جا

    جنت ڪاڇو ۽ ٿر آهي، ڪوثر منڇر، ڪينجھر آهي
    وڻن ٿا نظارا ڏاڍا سُهڻي سُهڻي سنڌ جا

    سنڌڙي جندڙي پياري پياري، عشق منجھان استاد بخاري
    ويٺا گيت ٺاهيون ۽ ڳايون، مِٺي پنهنجي سنڌ جا

    ******
    استاد بخاري

    16


    جيجل جھولي، ڏئي پئي لولي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    جيجل جھولي، ڏئي پئي لولي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    وڏڙو ٿيندين، وکڙون کڻندين
    پهرين پهرين ڦڙهي پڙهندين
    بي ٻي پي ڀي ٻاتڙي ٻولي، سنڌي ٻولي قومي ٻولي

    ڀيڻيون توکي ٽوپِي وجھنديون
    اَجرڪ آڻي، ٻوڪي ٻڌنديون
    چوڏِس تنهنجي چمڪي چولي، سنڌي ٻولي قومي ٻولي


    تنهنجي مامَن جي هيءَ ٻولي
    تنهنجي چاچن جي هيءَ ٻولي
    مٺڙي مٺڙي سولي سولي سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    جرنيل ٿيندين، جوڌو ٿيندين
    دريا خان ۽ دودو ٿيندين
    گولي تنهنجي در جي گولي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    وستي وستي واهڻ واهڻ
    پهڻي پهڻي، پاهڻ پاهڻ
    ساحل ساحل، ڇولي ڇولي، سنڌي ٻولي قومي ٻولي

    گھوٽ ڀٽائي واري ٻولي
    استاد آهي پياري ٻولي
    ڌارِي کارِي گھورِي گھولِي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    *********
    استاد بخاري

    17


    تون هاڻي مون کي پيارنه ڏي

    تون هاڻي مون کي پيارنه ڏي
    مان راهه- مسافر يار آهيان
    تون قرب وڌائي محبت جا
    هي ڪُلف، ڪڙا، ديوار نه ڏي
    مان هاڻ، هوا هسوار آهيان

    تون پيار ٿو ڏين
    جيون ٿو وڻي
    هي جيون ڇا
    هي جهور، مگر تَن، مَن ٿو وڻي
    هي گلشن ڇا
    هن گلشن جو ڪک پن ٿو وڻي

    هن دُنيا جا
    مونکي تنهنجي سونهن-سنوار جو سُنهن
    ڌنڌا ٿا وڻن
    هن دنيا جا
    تنهنجي وارن جي وَر وَر جو قسم
    ڦندا ٿا وڻن
    هن گلشن جا
    گؤنچ ته ڇا ڪنڊا ٿا وڻن
    هن دنيا جا

    هي تنهنجون اکيون، ابرو، پنبڙيون سڀ شاهد
    بڙڇون، نيزا، ڀالا ٿا وڻن
    هن دنيا جا
    هي تنهنجا ڳاڙها مِٺڙا مِٺڙا لَب شاهد
    طعنا، تنڪا، دڙڪا ٿا وڻن
    هن دنيا جا

    هن رياست جون
    تنهنجي ئي ڪڙين، ڪنگڙين جو ڪري
    سنگهرون ٿيون وڻن

    هن خلقت جون
    تنهنجي ئي ڳڻن، ڳالهين جي ڪري
    تعديون ٿيون وڻن

    تون مون کي ڪرڻ ديدار نه ڏي
    اک پنڇيءِ کي
    انهي پڃري جي ديوار نه ڏي
    اک منهنجي کِلي، اک تنهنجي ڇُهي
    تون گُهنڊ وجهي، اک ڇِڀندي ڇِڀندي، ڇِڙٻون ڏي
    مان، جيءُ چوان
    تون ڪنڌ ورائي، ڀُڻڪي ڀُڻڪي ڦوٽون ڏي
    هٿ منهنجو وڌي، هٿ تنهنجو وٺي
    تون ڇِرڪ ڀري، ڏند ڪرٽي ڪرٽي، هڪلون ڏي
    ها محبت کي وِجهه کَڏ کڻي
    ڪنهن ٿوهر، اَڪ جي دَڏ ۾ کڻي
    هر نُڪتي تي انڪار ئي ڏي
    جو ڏيئي سگهين آزار ئي ڏي
    جيئن جيون کان بيزار ٿيان
    ڇو ته موت- وَتوبيمار آهيان
    ۽ ”هَڻ-کَڻ“ تي هسوار آهيان

    منهنجي جذبن جو احساس نه ڪر
    ها مون تي ڪو ئي قياس نه ڪر
    هِن جسم ڪڙيل تي ڪرم نه ڪر
    ڪو روح ونگيل تي رحم نه ڪر
    جا توسان واڻيل آهي تنهن
    نَس نَس کي ڪَٽ، رڳ رڳ کي ڪٽ
    جو توسان ڳنڍيل آهي تنهن
    گس گس کي ڪٽ، دڳ دڳ کي ڪٽ
    هن ساهه کي ڪو سهڪار نه ڏي
    اتساهه کي ڪو آڌار نه ڏي
    هر گُفتي تي ڌڌڪار ئي ڏي
    ڏي چاهه کي هاڻي باهه کڻي
    لاڳاپا سڀ لاهه کڻي
    جيئن ــــ
    تن من کان بيزار ٿيان
    ۽ جيوت کي ”ٽي لفظ“ ڏيان
    ڇو ته موت-وتو بيمار آهيان
    هن وقت ته مان
    کڻي ڇا به ڪريان
    مختار نه پر لاچار اهيان
    *****
    استاد بخاري

    18



    مڃان ٿو ديس دل کي، نئين ،سگهي رت جي ضرورت آ


    مڃان ٿو ديس دل کي، نئين ،سگهي رت جي ضرورت آ

    مگر رت کي وري ڀاڄي، ڳڀي، ڀت جي ضرورت آ

    لُٽاشو، ميروڙو سنڌوءَ جو پاڻي پيا اسانکي ڏيو

    اسان ڪاٿي پڪاريو آ ته شربت جي ضرورت آ

    ڀڄي پئي چيلهه پر ماريءَ جي پر چوٽي چٿي ناهي

    اڃا هن نانگ کي لَت جي مٿان لت جي ضرورت آهي

    الائي ڪيتري ڪوشش کپي هڪ قوم ٺاهڻ لاءِ

    جڏهن هڪ نظم جوڙڻ لئي به محنت جي ضرورت آ

    قسم حق پاڪ جو، ان کان وڏو ٻيو ڪُفر ئي ڪونهي

    اُتي انصاف چئجي، جاٿي لعنت جي ضرورت آ

    غلامي ، غير، غم ڇاجا، غريبي، عرض ڪجهه ناهن

    فقط هر عين ۾ هڪ غين غيرت جي ضرورت آهي

    پُڇن ٿا  سنڌ ۽ سنڌين جي ڇو تسبيح پيو سورين؟

    چيم: هاڻي پڇاڙي آ، عبادت جي ضرورت آ.

    بخاري“ سنڌ، سنڌي ۽ سدا سنڌوندي دائم”

    نه ڪوثر جي، نه حُورن جي ، نه جنت جي ضرورت آ

    ******************

    Sunday, June 5, 2016

    استاد بخاري

    سنڌي شاعري تي خوش آمديد


    سنڌي شاعري (Sindhi poetry)
    Home Sufism poetry Sindhi Poets
    استاد بخاري
    1

    ،چانھ ڪوسي چڱي، آب ٿڌڙو هجي

    چانسنڌي شاعري تي خوش آمديد


    سنڌي شاعري (Sindhi poetry)
    Home Sufism poetry Sindhi Poets
    استاد بخاري
    1

    ،چانھ ڪوسي چڱي، آب ٿڌڙو هجي

    چانھ ڪوسي چڱي، آب ٿڌڙو هجي
    گرم جذبو هجي، نرم گفتو هجي؛

    قول ڪيڏو حڪيمن جو سهڻو سٺو
    جو به دلهير ٿئي تنهنجي لئه دوستو

    عرق انگور جو، صوف تازو هجي
    وقت جي رهبري، رهزني ريت جو

    هي ته هر پريت کي هوندو آھي پتو
    ڪاٿي نعرو لڳي ڪاٿي نخرو هجي

    رنگ سارا سُٺا ڪي به ناهن ڪسا
    نيڻ ناسي - عقابي، گلابي وڳا

    غير ڪارو، ڦِڪو، يار ڳاڙھو هجي
    زندگي حسن آ، تندرستي هجي

    تندرستي به آجي ۽ سهنجي هجي
    ڀر ۾ محبوب استاد ڀيڙو هجي


    ******
    استاد بخاري


    2

    گيت

    هير گهلندي وڃي
    ماڪ پوندي وڃي
    رات ٺرندي وڃي
    ياد تنهنجي اچي
    ننڊ ڦٽندي وڃي
    ڇا ڪريان! ڇا ڪريان

    چنڊ ڏاڍو وڻي
    نيڻ مون ڏي کڻي
    هانءَ ۾ چڪ هڻي
    تانگهہ توڏي تڻي
    .....ڇا ڪريان

    ڳوٺ وارا سمهن
    کيت، ٻارا سمهن
    چنڊ، ٻارا سمهن
    ياد تنهنجي اچي
    سُور سارا اٿن
    ڇا ڪريان

    ڪانگ ڀت تي لنوي
    گرهه هٿ مان ڪري
    شل نه ڪا اک ڦري
    ياد تنهنجي اچي
    باهه ڀڙڪي ٻري
    ڇا ڪريان

    ساز وڄندا رهن
    گيت نچندا رهن
    درد دکندا رهن
    ياد تنهنجي اچي
    نيڻ ٽمندا رهن
    ....ڇا ڪريان

    ڇو نه عيدون اچن
    رنگ خوشيون رچن
    محب موجون مچن
    ياد تنهنجي اچي
    ساهه ٿڌڙا کڄن
    ڇا ڪريان، ڇا ڪريان ڇا ڪريان، ڇا ڪريان

    ******
    استاد بخاري


    3

    هن دل کي بره بڇاڻي ڪو


    هن دل کي بره بڇاڻي ڪو
    شعلو نه سهي ٽانڊو ئي سهي

    مان ڀانيان مونکي کي ڀائي ڪو
    سهڻو نه سهي ڪوجهو ئي سهي

    ها چاهيان ٿو ڪو چاه ڪري
    دل سان نه سهي دوکو ئي سهي

    ڪو مُرڪي مُرڪي شرمائي
    سچ پچ نه سهي، نخرو ئي سهي

    ڪو ڀر ۾‌ اچي دل پرڀائي
    ڀوسو نه سهي گفتگو ئي سهي

    ها پيار ته پنهنجي وس ناهي
    همدردي جو جذبو ئي سهي

    استاد جو جذبو ڳڀرو آ
    توڙي جو پِنڊو پوڙهو ئي سهي

    هو مون به مٺا هڪ پيار لڌو
    ساڀيان نه سهي سپنو ئي سهي

    *****
    استاد بخاري

    4

    جانِ جانان بنان

    سونهن سرخي ٻسي، تيل، ڪنگا ڪنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    ويس ورتا به مون، هار پوتا به مون، پريت پورهيو ڪري
    ويس ڪارا ڪيان، هار ڇوڙيان ڇنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    مان لڇان پئي لڇان، مان پچان يا مچان، تن اَمِي سُمهه سُکي
    ڇو ته ڏاجا ڏِمان، تو ته ناهن ڏنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    قسمتون، ڪوششون، همتون هجتون، دوستيون دشمنيون
    هانوَ هڙني ڇنا، نانوَ ڪهڙا ڳنهان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    پيار برسات آهي، بخاري لڳاتار برکا وسي
    پيار خيرات ناهي، ڏيان يا پنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    (آستاد بخاري)

    5

    !ڇا ٿو ڀائين


    منهنجي باري ۾ او سائين
    ڇا ٿو ڀائين

    توکان هڪڙو ڏينهن ڇڄان ٿو
    ڏينهن انهي کي سال چوان ٿو
    پر جي وڇڙي ورهَ لڇائين
    ڇا ٿو ڀائين

    تنهنجي درشن لاءِ سڪان ٿو
    لک شڪرانا منهن ته ڏسان ٿو
    پر جي پنهنجي ڇاتيءَ لائين
    ڇا ٿو ڀائين

    غيرن سان گڏجاڻي تنهنجي
    جان جلي ٿي جاني منهنجي
    پر جي تن جو کائين، پائين
    ڇا ٿو ڀائين

    واقف آ استاد بخاري
    تو فرمائي دلڙي ٺاري
    پر جي منهنجو يار سڏائين
    ڇا ٿو ڀائين

    (استاد بخاري)

    6

    محبت ۾ درياهه وانگي وهان ٿو

    هٿين سکڻو ساحل جيان توڙي رهان ٿو
    محبت ۾ درياهه وانگي وهان ٿو
    نه سمجهين ته ناچيز، سمجهين ته سڀڪجهه
    لهان ٿو ته سهڻا، گهڻو ئي لهان ٿو
    تون منهنجي ضرورت، مان تنهنجي ضرورت
    تون مونسان ٺهين ٿو، مان توسان ٺهان ٿو
    تون مهراڻ مستي، مان هالار هستي
    پرين تنهنجي پاڙي ۾ ريڌو رهان ٿو
    بنا قرب ”استاد“ ڪک آهي ڪاتي
    پرين پيار آهي ته پاهڻ سهان ٿو


    ****
    استاد بخاري

    7

    ..دل جي ڪاروبار جو هڪ قاعدو آهي


    دل جي ڪاروبار جو هڪ قاعدو آهي
    ڪيترو نقصان ٿي ته به فائدو آهي

    عشق گھاڻي ۾ يا ڦاسي گھاٽ تي گرجيو
    موت جي منهن ۾ مگر مانائتو آهي

    جي مران، جيئان، مران جيئان سوين ڀيرا
    هر دفعي تو سان وفا هي واعدو آهي

    رعب جي گھر ۾ گھڻو پر ڪهڙي ڪم جو آ
    قرب سچي جو ڪڻو ڪارائتو آهي

    سونهن تي سچ تي ۽ سنڌ تي او امر شاعر
    شعر تو جيڪو لکيو شانائتو آهي

    تجلو ٿيو تارو کڙيو، تارو ڪِريو بس
    زندگي ۽ موت اهڙو حادثو آهي

    سنڌ ڌرتيءَ سان ۽ سرتيءَ سان بخاريءَ جو
    ڪجھ بلالي ڪجھ لطيفي رابطو آهي

    ****
    استاد بخاري

    8

    (نه ڪم نبريو نه غم نبريو (استاد بخاري

    نه ڪم نبريو نه غم نبريو، جو نبري ويو سو دم هوندو
    جو نِکري پيو سو سچ سمجهو، جو وِکري ويو وهم هوندو

    تکوگهوڙو ڊُڪي ڪيڏو، نظر هَسوار جي اڳتي
    زمانو تيز تنهن کان تيز تر، پنهنجو قدم هوندو

    اسان جي شاعري کي انقلابي دور ۾ کڻجو
    جڏهن هر لفظ پرچم، هر غزل اونچو عَلم هوندو

    ”تَشا“ واري لِڪل تقدير، نه تو سمجهي نه مون سمجهي
    جي ڪجهه سمجهي ته هي سمجهي؛ عمل اَحسن اُتم هوندو

    ڪا ڪِٿ ليلا ڪو ڪِٿ مجنون، ڪو ڪِٿ گهرجي ڪو ڪِٿ گهربل
    ڪا ڪنهن جي لئه اهم هوندي، ڪو ڪنهن جي لئه اهم هوندو

    بخاريءَ کي اوهان سڀني کان، يارو مان گهڻو ڄاڻان
    ڀلو جي ڀائرن سمجهو ته، رهجي ويو ڀرم هوندو

    (استاد بخاري)

    9

    (جيءُ جنهن کي چيم، (استاد بخاري

    جيءُ جنهن کي چيم، جهڻڪ تنهن کان مليم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر
    جان جن تي ڏنيم سي نه ڪانڌي ٿيم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    ڪيس ڪيڏا ڪيئي حُسن جي انڌ تي
    باهه ٻاري وڌءِ هانءَ جي هنڌ تي
    غير جي پنڌ تي پير تنهنجا ڏٺم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    پيار جي ڇانو ۾ ڪي ٻه ساٿي مليا
    جون جي سج جيان ڳوٺ وارا جليا
    خار کائي کِليا هي خبر جا ٻُڌم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    ڪا به نازڪ بدن نوجوان نازنين
    کنڊ جهڙي مِٺي، چنڊ جهڙي حسين
    دلربا دلنشين جي ڏکاري ڏٺم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    گيت جن لئه "بخاري" پڪاري لکيم
    سي ڌتاري ڌتاري ڌڪاري ويم
    نيڻ جن لئه ڀنم سي مٿان پئي کليم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    (استاد بخاري)

    10


    ...پيار، درياهه آ


    پيار، درياهه آ، درياهه به لَٽجي ٿو وڃي
    نيٺ انسان آ، انسان به مَٽجي ٿو وڃي

    مان مڃان ٿو ته سڀين پارين سڄڻ سون آهي
    هي غضب ٿيو جو سچو سون به ڪَٽجي ٿو وڃي

    بعضي بندوق شڪاريءَ جي ڇُٽي ٿي پٺتي
    جو ڦَٽي ٿو ڪڏهن پاڻ به ڦَٽجي ٿو وڃي

    حُسن آ باز، مگر عشق وڏي آفت آ
    مون ڏٺو آ ته ڪڏهن باز به جهَٽجي ٿو وڃي

    چند هَٽندي ئي وڏي ويرَ هٽي ويندي آ
    گهُورَ گهٽجي ٿي ته ”استاد“ به گهٽجي ٿو وڃي


    ***
    استاد بخاري

    11

    ..هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا


    هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا ، ٻيو تو مان نٿو ٿئي ڍئو سهڻا
    اهي ڀهڪيون ڳالهيون بخش ڪجاء مونکي محبت جو ٿئي مئو سهڻا

    هڪ عمر ۾ توکي ڇا ڏسندس هڪ عمر ۾ توسان ڇا کلندس
    مونکي عمريون هجن ها سئو سهڻا

    هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا، ٻيو تو مان نٿو ٿئي ڍئو سهڻا
    اهي ڀهڪيون ڳالهيون بخش ڪجاء مونکي محبت جو ٿئي مئو سهڻا


    تولاء روئان چئين ٿو روئڻو، تولاء سڪان چئين ٿو سڪڻو
    جيڪي چوڻو اٿئي پيو چئو سهڻا

    هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا، ٻيو تو مان نٿو ٿئي ڍئو سهڻا
    اهي ڀهڪيون ڳالهيون بخش ڪجاء مونکي محبت جو ٿئي مئو سهڻا
    *******
    استاد بخاري

    12


    محفل حسين تنهنجي تنهنجا حسين ماڻا


    محفل حسين تنهنجي تنهنجا حسين ماڻا
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا

    ڏاڍا وڏا شڪاري آيا شڪار ٿي ويا
    آيا هئا خريدڻ خود بي مُلها کپي ويا

    هي ڪاروبار تنهنجا ٿا نيڻ ڪن نماڻا۔
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا

    اي ڪاش تو اچين هان مان ڪانگ ٿو اُڏايان
    اهڙي جڳهه ڪٿي جو توکي کڻي ويهاريان۔

    ڇاتي ڪيان وڇاڻو ٻانهون ڏيان وهاڻا
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا۔

    هڪ ڳالهه هيء حياتي استاد وئي اجائي
    ٻي سوچ زندگاني ستبار ٿي سجائي

    هڪ پيار يار ڄاڻا ٻي ڪار ڪانه ڄاڻا
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا۔

    *****
    استاد بخاري

    13


    ،جيوت جي سنگيتن جهڙي جهانجهه وڳي هڪ رات


    ،جيوت جي سنگيتن جهڙي جهانجهه وڳي هڪ رات
    .رَڳ رَڳ ۾ پئي نينهن نچايو عمر سڄي هڪ رات

    ،جهولڻ جهومڻ، موجون ماڻڻ جي هُوءِ هڪڙي رات
    .وڇڙي وئي پر چَمڙي وانگر، روح کي چنبڙي رات

    ،جڳ جڳ جا جذبات کڻي اهڙي ته لنگھي هڪ رات
    .ويندي ويندي يار اسان جي عمر ونگي هڪ رات

    ،ڇا ته اڱڻ تي بادل، کنوڻيون کيڏيون ساري رات
    .رِم جِهم رِم جِهم برسي مِٺڙي بوسن جي برسات

    ،ڏينهن تي آهي شينهن گجي ٿو، رات به ناهي سانت
    .ڏيڏر، تِڏيون، چٻرا، چمڙا باتيون ڀانتين ڀانت

    ،ڏينهن تتو ڄڻ صبح ٿڌو ۽ ڀنڀ سُمهڻي باک
    .چاهت آهه ته چيٽ لڳي ٿو پوهه ڪتي ويساک

    ********
    استاد بخاري

    14


    ،دل ته چوي ٿي جُڳ جُڳ جيئان، موت ڏياريان مات


    ،دل ته چوي ٿي جُڳ جُڳ جيئان، موت ڏياريان مات
    !ڪاٿان او استاد بخاري، ايڏي آڻيان ڏات

    .دل ته چوي ٿي پيار هجي ٻيو تنهنجي سونهن - سنوار
    .موت وتي ٿي ڪاتيون لايون ڪاسائي جي ڪار

    ،دل ته چوي ٿي پيلو، نيلو گول بنايان لال
    .جيئو جيئڻ ڏيو پي ۽ پياري ماريان مُونجهه ملال

    ،دل ته چوي ٿي پورب، پڇّم ورڇيان محبت مال
    !ايڏو قُرب ڪمال ڪٿي، هي حاضر جهڙو حال

    ،مينگھ هجان ها، برسي برسي بَرّ ڪاريان ها باغ
    .سج هجان ها، اونداهيءَ جا روز ڌئان ها داغ

    ،محبت ريءَ مزار "بخاري" محبت ساڻ بزار
    !هڪڙي سونهن هجي سيني ۾، هُوندا هيج هزار

    *****
    استاد بخاري

    15


    اسان هون سپاهي، او ڀٽائي، تنهنجي سنڌ جا


    اسان هون سپاهي، او ڀٽائي، تنهنجي سنڌ جا
    درازيءَ جي ديس جا، سنائيءَ جي سنڌ جا

    عزم عنايت سچ سگھارو، برک بلاول، حيدر پيارو
    اِهي پيارا پيارا ماڻهو، پياري پياري سنڌ جا

    ڪوٺَ ڪنائي پورهيت جاڳيو، جرئت جاڳي، رتَ ستَ جاڳيو
    جاڳي پيا جيالا سارا، هاري ناري سنڌ جا

    ڌرتيءَ ڄايا پيا گڏجي سڏجي، سچ جي سڏ تي پرچي سرچي
    جوڙيون پيا نِڪورا خاڪا، آجي آجي سنڌ جا

    سورج وانگي چمڪي سنڌڙي، جُڳ جُڳ ۾ جيئي سنڌڙي
    هجن هر زبان تي نعرا، صبح، سانجھي سنڌ جا

    جنت ڪاڇو ۽ ٿر آهي، ڪوثر منڇر، ڪينجھر آهي
    وڻن ٿا نظارا ڏاڍا سُهڻي سُهڻي سنڌ جا

    سنڌڙي جندڙي پياري پياري، عشق منجھان استاد بخاري
    ويٺا گيت ٺاهيون ۽ ڳايون، مِٺي پنهنجي سنڌ جا

    ******
    استاد بخاري

    16


    جيجل جھولي، ڏئي پئي لولي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    جيجل جھولي، ڏئي پئي لولي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    وڏڙو ٿيندين، وکڙون کڻندين
    پهرين پهرين ڦڙهي پڙهندين
    بي ٻي پي ڀي ٻاتڙي ٻولي، سنڌي ٻولي قومي ٻولي

    ڀيڻيون توکي ٽوپِي وجھنديون
    اَجرڪ آڻي، ٻوڪي ٻڌنديون
    چوڏِس تنهنجي چمڪي چولي، سنڌي ٻولي قومي ٻولي


    تنهنجي مامَن جي هيءَ ٻولي
    تنهنجي چاچن جي هيءَ ٻولي
    مٺڙي مٺڙي سولي سولي سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    جرنيل ٿيندين، جوڌو ٿيندين
    دريا خان ۽ دودو ٿيندين
    گولي تنهنجي در جي گولي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    وستي وستي واهڻ واهڻ
    پهڻي پهڻي، پاهڻ پاهڻ
    ساحل ساحل، ڇولي ڇولي، سنڌي ٻولي قومي ٻولي

    گھوٽ ڀٽائي واري ٻولي
    استاد آهي پياري ٻولي
    ڌارِي کارِي گھورِي گھولِي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    *********
    استاد بخاري

    17


    تون هاڻي مون کي پيارنه ڏي

    تون هاڻي مون کي پيارنه ڏي
    مان راهه- مسافر يار آهيان
    تون قرب وڌائي محبت جا
    هي ڪُلف، ڪڙا، ديوار نه ڏي
    مان هاڻ، هوا هسوار آهيان

    تون پيار ٿو ڏين
    جيون ٿو وڻي
    هي جيون ڇا
    هي جهور، مگر تَن، مَن ٿو وڻي
    هي گلشن ڇا
    هن گلشن جو ڪک پن ٿو وڻي

    هن دُنيا جا
    مونکي تنهنجي سونهن-سنوار جو سُنهن
    ڌنڌا ٿا وڻن
    هن دنيا جا
    تنهنجي وارن جي وَر وَر جو قسم
    ڦندا ٿا وڻن
    هن گلشن جا
    گؤنچ ته ڇا ڪنڊا ٿا وڻن
    هن دنيا جا

    هي تنهنجون اکيون، ابرو، پنبڙيون سڀ شاهد
    بڙڇون، نيزا، ڀالا ٿا وڻن
    هن دنيا جا
    هي تنهنجا ڳاڙها مِٺڙا مِٺڙا لَب شاهد
    طعنا، تنڪا، دڙڪا ٿا وڻن
    هن دنيا جا

    هن رياست جون
    تنهنجي ئي ڪڙين، ڪنگڙين جو ڪري
    سنگهرون ٿيون وڻن

    هن خلقت جون
    تنهنجي ئي ڳڻن، ڳالهين جي ڪري
    تعديون ٿيون وڻن

    تون مون کي ڪرڻ ديدار نه ڏي
    اک پنڇيءِ کي
    انهي پڃري جي ديوار نه ڏي
    اک منهنجي کِلي، اک تنهنجي ڇُهي
    تون گُهنڊ وجهي، اک ڇِڀندي ڇِڀندي، ڇِڙٻون ڏي
    مان، جيءُ چوان
    تون ڪنڌ ورائي، ڀُڻڪي ڀُڻڪي ڦوٽون ڏي
    هٿ منهنجو وڌي، هٿ تنهنجو وٺي
    تون ڇِرڪ ڀري، ڏند ڪرٽي ڪرٽي، هڪلون ڏي
    ها محبت کي وِجهه کَڏ کڻي
    ڪنهن ٿوهر، اَڪ جي دَڏ ۾ کڻي
    هر نُڪتي تي انڪار ئي ڏي
    جو ڏيئي سگهين آزار ئي ڏي
    جيئن جيون کان بيزار ٿيان
    ڇو ته موت- وَتوبيمار آهيان
    ۽ ”هَڻ-کَڻ“ تي هسوار آهيان

    منهنجي جذبن جو احساس نه ڪر
    ها مون تي ڪو ئي قياس نه ڪر
    هِن جسم ڪڙيل تي ڪرم نه ڪر
    ڪو روح ونگيل تي رحم نه ڪر
    جا توسان واڻيل آهي تنهن
    نَس نَس کي ڪَٽ، رڳ رڳ کي ڪٽ
    جو توسان ڳنڍيل آهي تنهن
    گس گس کي ڪٽ، دڳ دڳ کي ڪٽ
    هن ساهه کي ڪو سهڪار نه ڏي
    اتساهه کي ڪو آڌار نه ڏي
    هر گُفتي تي ڌڌڪار ئي ڏي
    ڏي چاهه کي هاڻي باهه کڻي
    لاڳاپا سڀ لاهه کڻي
    جيئن ــــ
    تن من کان بيزار ٿيان
    ۽ جيوت کي ”ٽي لفظ“ ڏيان
    ڇو ته موت-وتو بيمار آهيان
    هن وقت ته مان
    کڻي ڇا به ڪريان
    مختار نه پر لاچار اهيان
    *****
    استاد بخاري

    18



    مڃان ٿو ديس دل کي، نئين ،سگهي رت جي ضرورت آ


    مڃان ٿو ديس دل کي، نئين ،سگهي رت جي ضرورت آ

    مگر رت کي وري ڀاڄي، ڳڀي، ڀت جي ضرورت آ

    لُٽاشو، ميروڙو سنڌوءَ جو پاڻي پيا اسانکي ڏيو

    اسان ڪاٿي پڪاريو آ ته شربت جي ضرورت آ

    ڀڄي پئي چيلهه پر ماريءَ جي پر چوٽي چٿي ناهي

    اڃا هن نانگ کي لَت جي مٿان لت جي ضرورت آهي

    الائي ڪيتري ڪوشش کپي هڪ قوم ٺاهڻ لاءِ

    جڏهن هڪ نظم جوڙڻ لئي به محنت جي ضرورت آ

    قسم حق پاڪ جو، ان کان وڏو ٻيو ڪُفر ئي ڪونهي

    اُتي انصاف چئجي، جاٿي لعنت جي ضرورت آ

    غلامي ، غير، غم ڇاجا، غريبي، عرض ڪجهه ناهن

    فقط هر عين ۾ هڪ غين غيرت جي ضرورت آهي

    پُڇن ٿا  سنڌ ۽ سنڌين جي ڇو تسبيح پيو سورين؟

    چيم: هاڻي پڇاڙي آ، عبادت جي ضرورت آ.

    بخاري“ سنڌ، سنڌي ۽ سدا سنڌوندي دائم”

    نه ڪوثر جي، نه حُورن جي ، نه جنت جي ضرورت آ

    ******************
    استاد بخاري

    19

    ...خريدارو، وڃو موٽي، خدا جو سُنهن کتل آهيان


    خريدارو، وڃو موٽي، خدا جو سُنهن کتل آهيان
    ڄمڻ کان موت تائين، سنڌ ـــــــــ ڌرتيءَ جو وَتل آهيان

    جي اورين ٿو ته مان همغم، جي روئين ٿو ته مان ماتم
    جي ماپين ٿو ته مان پربَت، جھُڪائين ٿو جبل آهيان

    اجل منهنجي پٺيان، تقدير سِرَ تي ، رب رڳ رڳ ۾
    اٽل جيڪي به آهن مون سان آهن مان اٽل آهيان

    خليل الله ٿو بنجين، گواهه الله ٿو ڏين، پر
    اِنهيءَ ڪاتي اِنهيءَ هٿ کان ڪئي ڀيرا ڪُٺل آهيان

    جي تون آڙاهه مان بادل، جي تون بادل ته مان اوٿر
    تون جيڪي ٿين ۽ جاٿي ٿين، مٿان تنهنجي اجل آهيان

    ازل کان پئي هليو آهيان، بخاري ڪجھ ٿڪو هوندس
    جھلئي ڪَنهنجي رڪيو ناهيان اڃان چئبو اجھل آهيان
    ******
    استاد بخاري

    20


    تحرير کي ترار بنايون بچي پئون


    تحرير کي ترار بنايون بچي پئون
    ڪوڪار مان ڪٽار بنايون بچي پئون

    هِن جوءِ لئه هزار اٿي جانباز پيا
    هڪ هڪ منجھان هزار بنايون بچي پئون

    غدار پنهنجا دوست ٿين، ٿُڪ هڻي ڇڏيون
    جھونجھار پنهنجا يار بنايون بچي پئون

    پرمار لئه هار کنيون ٿا وتون، شرم
    حقدار لاءِ هار بنايون بچي پئون

    ماري وجھن ٿيون يار مسلسل مُنافقيون
    جي فيصلا سچار بنايون بچي پئون

    بندوق ۽ ڪتاب مٿان دسترس هجي
    هوشيار پنهنجا ٻار بنايون بچي پئون

    جيڏا نه گيت، بيت بخاري گھڙيون ٿا پيا
    ايڏا اٿي هٿيار بنايون بچي پئون

    *********
    استاد بخاري

    جاري

    Email This
    BlogThis!
    Share to Twitter
    Share to Facebook
     
    سرِورق
    View mobile version
    About Me
    Abdul basit palh  
    View my complete profile

    Sindhi Poetry
    سنڌي غزل چئو سٽو چئو سٽو چئو سٽو (سنڌي ٻه لائن شاعري)Sindhi 2 line poetry Sindhi Shayari Collection 1 Sufism poetry سچل سرمست
    Palh4u. Template images by suprun. Powered by Blogger.
    ايڊٽنگ؛ عبدالباسط پلهه ڊزائن؛ پلهه ماجد صاحب
    ھ ڪوسي چڱي، آب ٿڌڙو هجي
    گرم جذبو هجي، نرم گفتو هجي؛

    قول ڪيڏو حڪيمن جو سهڻو سٺو
    جو به دلهير ٿئي تنهنجي لئه دوستو

    عرق انگور جو، صوف تازو هجي
    وقت جي رهبري، رهزني ريت جو

    هي ته هر پريت کي هوندو آھي پتو
    ڪاٿي نعرو لڳي ڪاٿي نخرو هجي

    رنگ سارا سُٺا ڪي به ناهن ڪسا
    نيڻ ناسي - عقابي، گلابي وڳا

    غير ڪارو، ڦِڪو، يار ڳاڙھو هجي
    زندگي حسن آ، تندرستي هجي

    تندرستي به آجي ۽ سهنجي هجي
    ڀر ۾ محبوب استاد ڀيڙو هجي


    ******
    استاد بخاري


    2

    گيت

    هير گهلندي وڃي
    ماڪ پوندي وڃي
    رات ٺرندي وڃي
    ياد تنهنجي اچي
    ننڊ ڦٽندي وڃي
    ڇا ڪريان! ڇا ڪريان

    چنڊ ڏاڍو وڻي
    نيڻ مون ڏي کڻي
    هانءَ ۾ چڪ هڻي
    تانگهہ توڏي تڻي
    .....ڇا ڪريان

    ڳوٺ وارا سمهن
    کيت، ٻارا سمهن
    چنڊ، ٻارا سمهن
    ياد تنهنجي اچي
    سُور سارا اٿن
    ڇا ڪريان

    ڪانگ ڀت تي لنوي
    گرهه هٿ مان ڪري
    شل نه ڪا اک ڦري
    ياد تنهنجي اچي
    باهه ڀڙڪي ٻري
    ڇا ڪريان

    ساز وڄندا رهن
    گيت نچندا رهن
    درد دکندا رهن
    ياد تنهنجي اچي
    نيڻ ٽمندا رهن
    ....ڇا ڪريان

    ڇو نه عيدون اچن
    رنگ خوشيون رچن
    محب موجون مچن
    ياد تنهنجي اچي
    ساهه ٿڌڙا کڄن
    ڇا ڪريان، ڇا ڪريان ڇا ڪريان، ڇا ڪريان

    ******
    استاد بخاري


    3

    هن دل کي بره بڇاڻي ڪو


    هن دل کي بره بڇاڻي ڪو
    شعلو نه سهي ٽانڊو ئي سهي

    مان ڀانيان مونکي کي ڀائي ڪو
    سهڻو نه سهي ڪوجهو ئي سهي

    ها چاهيان ٿو ڪو چاه ڪري
    دل سان نه سهي دوکو ئي سهي

    ڪو مُرڪي مُرڪي شرمائي
    سچ پچ نه سهي، نخرو ئي سهي

    ڪو ڀر ۾‌ اچي دل پرڀائي
    ڀوسو نه سهي گفتگو ئي سهي

    ها پيار ته پنهنجي وس ناهي
    همدردي جو جذبو ئي سهي

    استاد جو جذبو ڳڀرو آ
    توڙي جو پِنڊو پوڙهو ئي سهي

    هو مون به مٺا هڪ پيار لڌو
    ساڀيان نه سهي سپنو ئي سهي

    *****
    استاد بخاري

    4

    جانِ جانان بنان

    سونهن سرخي ٻسي، تيل، ڪنگا ڪنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    ويس ورتا به مون، هار پوتا به مون، پريت پورهيو ڪري
    ويس ڪارا ڪيان، هار ڇوڙيان ڇنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    مان لڇان پئي لڇان، مان پچان يا مچان، تن اَمِي سُمهه سُکي
    ڇو ته ڏاجا ڏِمان، تو ته ناهن ڏنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    قسمتون، ڪوششون، همتون هجتون، دوستيون دشمنيون
    هانوَ هڙني ڇنا، نانوَ ڪهڙا ڳنهان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    پيار برسات آهي، بخاري لڳاتار برکا وسي
    پيار خيرات ناهي، ڏيان يا پنان، جانِ جانان بنان
    جانِ جانان بنان

    (آستاد بخاري)

    5

    !ڇا ٿو ڀائين


    منهنجي باري ۾ او سائين
    ڇا ٿو ڀائين

    توکان هڪڙو ڏينهن ڇڄان ٿو
    ڏينهن انهي کي سال چوان ٿو
    پر جي وڇڙي ورهَ لڇائين
    ڇا ٿو ڀائين

    تنهنجي درشن لاءِ سڪان ٿو
    لک شڪرانا منهن ته ڏسان ٿو
    پر جي پنهنجي ڇاتيءَ لائين
    ڇا ٿو ڀائين

    غيرن سان گڏجاڻي تنهنجي
    جان جلي ٿي جاني منهنجي
    پر جي تن جو کائين، پائين
    ڇا ٿو ڀائين

    واقف آ استاد بخاري
    تو فرمائي دلڙي ٺاري
    پر جي منهنجو يار سڏائين
    ڇا ٿو ڀائين

    (استاد بخاري)

    6

    محبت ۾ درياهه وانگي وهان ٿو

    هٿين سکڻو ساحل جيان توڙي رهان ٿو
    محبت ۾ درياهه وانگي وهان ٿو
    نه سمجهين ته ناچيز، سمجهين ته سڀڪجهه
    لهان ٿو ته سهڻا، گهڻو ئي لهان ٿو
    تون منهنجي ضرورت، مان تنهنجي ضرورت
    تون مونسان ٺهين ٿو، مان توسان ٺهان ٿو
    تون مهراڻ مستي، مان هالار هستي
    پرين تنهنجي پاڙي ۾ ريڌو رهان ٿو
    بنا قرب ”استاد“ ڪک آهي ڪاتي
    پرين پيار آهي ته پاهڻ سهان ٿو


    ****
    استاد بخاري

    7

    ..دل جي ڪاروبار جو هڪ قاعدو آهي


    دل جي ڪاروبار جو هڪ قاعدو آهي
    ڪيترو نقصان ٿي ته به فائدو آهي

    عشق گھاڻي ۾ يا ڦاسي گھاٽ تي گرجيو
    موت جي منهن ۾ مگر مانائتو آهي

    جي مران، جيئان، مران جيئان سوين ڀيرا
    هر دفعي تو سان وفا هي واعدو آهي

    رعب جي گھر ۾ گھڻو پر ڪهڙي ڪم جو آ
    قرب سچي جو ڪڻو ڪارائتو آهي

    سونهن تي سچ تي ۽ سنڌ تي او امر شاعر
    شعر تو جيڪو لکيو شانائتو آهي

    تجلو ٿيو تارو کڙيو، تارو ڪِريو بس
    زندگي ۽ موت اهڙو حادثو آهي

    سنڌ ڌرتيءَ سان ۽ سرتيءَ سان بخاريءَ جو
    ڪجھ بلالي ڪجھ لطيفي رابطو آهي

    ****
    استاد بخاري

    8

    (نه ڪم نبريو نه غم نبريو (استاد بخاري

    نه ڪم نبريو نه غم نبريو، جو نبري ويو سو دم هوندو
    جو نِکري پيو سو سچ سمجهو، جو وِکري ويو وهم هوندو

    تکوگهوڙو ڊُڪي ڪيڏو، نظر هَسوار جي اڳتي
    زمانو تيز تنهن کان تيز تر، پنهنجو قدم هوندو

    اسان جي شاعري کي انقلابي دور ۾ کڻجو
    جڏهن هر لفظ پرچم، هر غزل اونچو عَلم هوندو

    ”تَشا“ واري لِڪل تقدير، نه تو سمجهي نه مون سمجهي
    جي ڪجهه سمجهي ته هي سمجهي؛ عمل اَحسن اُتم هوندو

    ڪا ڪِٿ ليلا ڪو ڪِٿ مجنون، ڪو ڪِٿ گهرجي ڪو ڪِٿ گهربل
    ڪا ڪنهن جي لئه اهم هوندي، ڪو ڪنهن جي لئه اهم هوندو

    بخاريءَ کي اوهان سڀني کان، يارو مان گهڻو ڄاڻان
    ڀلو جي ڀائرن سمجهو ته، رهجي ويو ڀرم هوندو

    (استاد بخاري)

    9

    (جيءُ جنهن کي چيم، (استاد بخاري

    جيءُ جنهن کي چيم، جهڻڪ تنهن کان مليم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر
    جان جن تي ڏنيم سي نه ڪانڌي ٿيم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    ڪيس ڪيڏا ڪيئي حُسن جي انڌ تي
    باهه ٻاري وڌءِ هانءَ جي هنڌ تي
    غير جي پنڌ تي پير تنهنجا ڏٺم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    پيار جي ڇانو ۾ ڪي ٻه ساٿي مليا
    جون جي سج جيان ڳوٺ وارا جليا
    خار کائي کِليا هي خبر جا ٻُڌم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    ڪا به نازڪ بدن نوجوان نازنين
    کنڊ جهڙي مِٺي، چنڊ جهڙي حسين
    دلربا دلنشين جي ڏکاري ڏٺم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    گيت جن لئه "بخاري" پڪاري لکيم
    سي ڌتاري ڌتاري ڌڪاري ويم
    نيڻ جن لئه ڀنم سي مٿان پئي کليم
    چوٽ ڏاڍي رسيم پر ڪيم درگذر

    (استاد بخاري)

    10


    ...پيار، درياهه آ


    پيار، درياهه آ، درياهه به لَٽجي ٿو وڃي
    نيٺ انسان آ، انسان به مَٽجي ٿو وڃي

    مان مڃان ٿو ته سڀين پارين سڄڻ سون آهي
    هي غضب ٿيو جو سچو سون به ڪَٽجي ٿو وڃي

    بعضي بندوق شڪاريءَ جي ڇُٽي ٿي پٺتي
    جو ڦَٽي ٿو ڪڏهن پاڻ به ڦَٽجي ٿو وڃي

    حُسن آ باز، مگر عشق وڏي آفت آ
    مون ڏٺو آ ته ڪڏهن باز به جهَٽجي ٿو وڃي

    چند هَٽندي ئي وڏي ويرَ هٽي ويندي آ
    گهُورَ گهٽجي ٿي ته ”استاد“ به گهٽجي ٿو وڃي


    ***
    استاد بخاري

    11

    ..هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا


    هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا ، ٻيو تو مان نٿو ٿئي ڍئو سهڻا
    اهي ڀهڪيون ڳالهيون بخش ڪجاء مونکي محبت جو ٿئي مئو سهڻا

    هڪ عمر ۾ توکي ڇا ڏسندس هڪ عمر ۾ توسان ڇا کلندس
    مونکي عمريون هجن ها سئو سهڻا

    هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا، ٻيو تو مان نٿو ٿئي ڍئو سهڻا
    اهي ڀهڪيون ڳالهيون بخش ڪجاء مونکي محبت جو ٿئي مئو سهڻا


    تولاء روئان چئين ٿو روئڻو، تولاء سڪان چئين ٿو سڪڻو
    جيڪي چوڻو اٿئي پيو چئو سهڻا

    هڪ موت مئي جو ڀئو سهڻا، ٻيو تو مان نٿو ٿئي ڍئو سهڻا
    اهي ڀهڪيون ڳالهيون بخش ڪجاء مونکي محبت جو ٿئي مئو سهڻا
    *******
    استاد بخاري

    12


    محفل حسين تنهنجي تنهنجا حسين ماڻا


    محفل حسين تنهنجي تنهنجا حسين ماڻا
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا

    ڏاڍا وڏا شڪاري آيا شڪار ٿي ويا
    آيا هئا خريدڻ خود بي مُلها کپي ويا

    هي ڪاروبار تنهنجا ٿا نيڻ ڪن نماڻا۔
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا

    اي ڪاش تو اچين هان مان ڪانگ ٿو اُڏايان
    اهڙي جڳهه ڪٿي جو توکي کڻي ويهاريان۔

    ڇاتي ڪيان وڇاڻو ٻانهون ڏيان وهاڻا
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا۔

    هڪ ڳالهه هيء حياتي استاد وئي اجائي
    ٻي سوچ زندگاني ستبار ٿي سجائي

    هڪ پيار يار ڄاڻا ٻي ڪار ڪانه ڄاڻا
    هت مير پير آهن ناڻي بنا وڪاڻا۔

    *****
    استاد بخاري

    13


    ،جيوت جي سنگيتن جهڙي جهانجهه وڳي هڪ رات


    ،جيوت جي سنگيتن جهڙي جهانجهه وڳي هڪ رات
    .رَڳ رَڳ ۾ پئي نينهن نچايو عمر سڄي هڪ رات

    ،جهولڻ جهومڻ، موجون ماڻڻ جي هُوءِ هڪڙي رات
    .وڇڙي وئي پر چَمڙي وانگر، روح کي چنبڙي رات

    ،جڳ جڳ جا جذبات کڻي اهڙي ته لنگھي هڪ رات
    .ويندي ويندي يار اسان جي عمر ونگي هڪ رات

    ،ڇا ته اڱڻ تي بادل، کنوڻيون کيڏيون ساري رات
    .رِم جِهم رِم جِهم برسي مِٺڙي بوسن جي برسات

    ،ڏينهن تي آهي شينهن گجي ٿو، رات به ناهي سانت
    .ڏيڏر، تِڏيون، چٻرا، چمڙا باتيون ڀانتين ڀانت

    ،ڏينهن تتو ڄڻ صبح ٿڌو ۽ ڀنڀ سُمهڻي باک
    .چاهت آهه ته چيٽ لڳي ٿو پوهه ڪتي ويساک

    ********
    استاد بخاري

    14


    ،دل ته چوي ٿي جُڳ جُڳ جيئان، موت ڏياريان مات


    ،دل ته چوي ٿي جُڳ جُڳ جيئان، موت ڏياريان مات
    !ڪاٿان او استاد بخاري، ايڏي آڻيان ڏات

    .دل ته چوي ٿي پيار هجي ٻيو تنهنجي سونهن - سنوار
    .موت وتي ٿي ڪاتيون لايون ڪاسائي جي ڪار

    ،دل ته چوي ٿي پيلو، نيلو گول بنايان لال
    .جيئو جيئڻ ڏيو پي ۽ پياري ماريان مُونجهه ملال

    ،دل ته چوي ٿي پورب، پڇّم ورڇيان محبت مال
    !ايڏو قُرب ڪمال ڪٿي، هي حاضر جهڙو حال

    ،مينگھ هجان ها، برسي برسي بَرّ ڪاريان ها باغ
    .سج هجان ها، اونداهيءَ جا روز ڌئان ها داغ

    ،محبت ريءَ مزار "بخاري" محبت ساڻ بزار
    !هڪڙي سونهن هجي سيني ۾، هُوندا هيج هزار

    *****
    استاد بخاري

    15


    اسان هون سپاهي، او ڀٽائي، تنهنجي سنڌ جا


    اسان هون سپاهي، او ڀٽائي، تنهنجي سنڌ جا
    درازيءَ جي ديس جا، سنائيءَ جي سنڌ جا

    عزم عنايت سچ سگھارو، برک بلاول، حيدر پيارو
    اِهي پيارا پيارا ماڻهو، پياري پياري سنڌ جا

    ڪوٺَ ڪنائي پورهيت جاڳيو، جرئت جاڳي، رتَ ستَ جاڳيو
    جاڳي پيا جيالا سارا، هاري ناري سنڌ جا

    ڌرتيءَ ڄايا پيا گڏجي سڏجي، سچ جي سڏ تي پرچي سرچي
    جوڙيون پيا نِڪورا خاڪا، آجي آجي سنڌ جا

    سورج وانگي چمڪي سنڌڙي، جُڳ جُڳ ۾ جيئي سنڌڙي
    هجن هر زبان تي نعرا، صبح، سانجھي سنڌ جا

    جنت ڪاڇو ۽ ٿر آهي، ڪوثر منڇر، ڪينجھر آهي
    وڻن ٿا نظارا ڏاڍا سُهڻي سُهڻي سنڌ جا

    سنڌڙي جندڙي پياري پياري، عشق منجھان استاد بخاري
    ويٺا گيت ٺاهيون ۽ ڳايون، مِٺي پنهنجي سنڌ جا

    ******
    استاد بخاري

    16


    جيجل جھولي، ڏئي پئي لولي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    جيجل جھولي، ڏئي پئي لولي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    وڏڙو ٿيندين، وکڙون کڻندين
    پهرين پهرين ڦڙهي پڙهندين
    بي ٻي پي ڀي ٻاتڙي ٻولي، سنڌي ٻولي قومي ٻولي

    ڀيڻيون توکي ٽوپِي وجھنديون
    اَجرڪ آڻي، ٻوڪي ٻڌنديون
    چوڏِس تنهنجي چمڪي چولي، سنڌي ٻولي قومي ٻولي


    تنهنجي مامَن جي هيءَ ٻولي
    تنهنجي چاچن جي هيءَ ٻولي
    مٺڙي مٺڙي سولي سولي سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    جرنيل ٿيندين، جوڌو ٿيندين
    دريا خان ۽ دودو ٿيندين
    گولي تنهنجي در جي گولي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    وستي وستي واهڻ واهڻ
    پهڻي پهڻي، پاهڻ پاهڻ
    ساحل ساحل، ڇولي ڇولي، سنڌي ٻولي قومي ٻولي

    گھوٽ ڀٽائي واري ٻولي
    استاد آهي پياري ٻولي
    ڌارِي کارِي گھورِي گھولِي، سنڌي ٻولي، قومي ٻولي

    *********
    استاد بخاري

    17


    تون هاڻي مون کي پيارنه ڏي

    تون هاڻي مون کي پيارنه ڏي
    مان راهه- مسافر يار آهيان
    تون قرب وڌائي محبت جا
    هي ڪُلف، ڪڙا، ديوار نه ڏي
    مان هاڻ، هوا هسوار آهيان

    تون پيار ٿو ڏين
    جيون ٿو وڻي
    هي جيون ڇا
    هي جهور، مگر تَن، مَن ٿو وڻي
    هي گلشن ڇا
    هن گلشن جو ڪک پن ٿو وڻي

    هن دُنيا جا
    مونکي تنهنجي سونهن-سنوار جو سُنهن
    ڌنڌا ٿا وڻن
    هن دنيا جا
    تنهنجي وارن جي وَر وَر جو قسم
    ڦندا ٿا وڻن
    هن گلشن جا
    گؤنچ ته ڇا ڪنڊا ٿا وڻن
    هن دنيا جا

    هي تنهنجون اکيون، ابرو، پنبڙيون سڀ شاهد
    بڙڇون، نيزا، ڀالا ٿا وڻن
    هن دنيا جا
    هي تنهنجا ڳاڙها مِٺڙا مِٺڙا لَب شاهد
    طعنا، تنڪا، دڙڪا ٿا وڻن
    هن دنيا جا

    هن رياست جون
    تنهنجي ئي ڪڙين، ڪنگڙين جو ڪري
    سنگهرون ٿيون وڻن

    هن خلقت جون
    تنهنجي ئي ڳڻن، ڳالهين جي ڪري
    تعديون ٿيون وڻن

    تون مون کي ڪرڻ ديدار نه ڏي
    اک پنڇيءِ کي
    انهي پڃري جي ديوار نه ڏي
    اک منهنجي کِلي، اک تنهنجي ڇُهي
    تون گُهنڊ وجهي، اک ڇِڀندي ڇِڀندي، ڇِڙٻون ڏي
    مان، جيءُ چوان
    تون ڪنڌ ورائي، ڀُڻڪي ڀُڻڪي ڦوٽون ڏي
    هٿ منهنجو وڌي، هٿ تنهنجو وٺي
    تون ڇِرڪ ڀري، ڏند ڪرٽي ڪرٽي، هڪلون ڏي
    ها محبت کي وِجهه کَڏ کڻي
    ڪنهن ٿوهر، اَڪ جي دَڏ ۾ کڻي
    هر نُڪتي تي انڪار ئي ڏي
    جو ڏيئي سگهين آزار ئي ڏي
    جيئن جيون کان بيزار ٿيان
    ڇو ته موت- وَتوبيمار آهيان
    ۽ ”هَڻ-کَڻ“ تي هسوار آهيان

    منهنجي جذبن جو احساس نه ڪر
    ها مون تي ڪو ئي قياس نه ڪر
    هِن جسم ڪڙيل تي ڪرم نه ڪر
    ڪو روح ونگيل تي رحم نه ڪر
    جا توسان واڻيل آهي تنهن
    نَس نَس کي ڪَٽ، رڳ رڳ کي ڪٽ
    جو توسان ڳنڍيل آهي تنهن
    گس گس کي ڪٽ، دڳ دڳ کي ڪٽ
    هن ساهه کي ڪو سهڪار نه ڏي
    اتساهه کي ڪو آڌار نه ڏي
    هر گُفتي تي ڌڌڪار ئي ڏي
    ڏي چاهه کي هاڻي باهه کڻي
    لاڳاپا سڀ لاهه کڻي
    جيئن ــــ
    تن من کان بيزار ٿيان
    ۽ جيوت کي ”ٽي لفظ“ ڏيان
    ڇو ته موت-وتو بيمار آهيان
    هن وقت ته مان
    کڻي ڇا به ڪريان
    مختار نه پر لاچار اهيان
    *****
    استاد بخاري

    18



    مڃان ٿو ديس دل کي، نئين ،سگهي رت جي ضرورت آ


    مڃان ٿو ديس دل کي، نئين ،سگهي رت جي ضرورت آ

    مگر رت کي وري ڀاڄي، ڳڀي، ڀت جي ضرورت آ

    لُٽاشو، ميروڙو سنڌوءَ جو پاڻي پيا اسانکي ڏيو

    اسان ڪاٿي پڪاريو آ ته شربت جي ضرورت آ

    ڀڄي پئي چيلهه پر ماريءَ جي پر چوٽي چٿي ناهي

    اڃا هن نانگ کي لَت جي مٿان لت جي ضرورت آهي

    الائي ڪيتري ڪوشش کپي هڪ قوم ٺاهڻ لاءِ

    جڏهن هڪ نظم جوڙڻ لئي به محنت جي ضرورت آ

    قسم حق پاڪ جو، ان کان وڏو ٻيو ڪُفر ئي ڪونهي

    اُتي انصاف چئجي، جاٿي لعنت جي ضرورت آ

    غلامي ، غير، غم ڇاجا، غريبي، عرض ڪجهه ناهن

    فقط هر عين ۾ هڪ غين غيرت جي ضرورت آهي

    پُڇن ٿا  سنڌ ۽ سنڌين جي ڇو تسبيح پيو سورين؟

    چيم: هاڻي پڇاڙي آ، عبادت جي ضرورت آ.

    بخاري“ سنڌ، سنڌي ۽ سدا سنڌوندي دائم”

    نه ڪوثر جي، نه حُورن جي ، نه جنت جي ضرورت آ

    ******************
    استاد بخاري

    19

    ...خريدارو، وڃو موٽي، خدا جو سُنهن کتل آهيان


    خريدارو، وڃو موٽي، خدا جو سُنهن کتل آهيان
    ڄمڻ کان موت تائين، سنڌ ـــــــــ ڌرتيءَ جو وَتل آهيان

    جي اورين ٿو ته مان همغم، جي روئين ٿو ته مان ماتم
    جي ماپين ٿو ته مان پربَت، جھُڪائين ٿو جبل آهيان

    اجل منهنجي پٺيان، تقدير سِرَ تي ، رب رڳ رڳ ۾
    اٽل جيڪي به آهن مون سان آهن مان اٽل آهيان

    خليل الله ٿو بنجين، گواهه الله ٿو ڏين، پر
    اِنهيءَ ڪاتي اِنهيءَ هٿ کان ڪئي ڀيرا ڪُٺل آهيان

    جي تون آڙاهه مان بادل، جي تون بادل ته مان اوٿر
    تون جيڪي ٿين ۽ جاٿي ٿين، مٿان تنهنجي اجل آهيان

    ازل کان پئي هليو آهيان، بخاري ڪجھ ٿڪو هوندس
    جھلئي ڪَنهنجي رڪيو ناهيان اڃان چئبو اجھل آهيان
    ******
    استاد بخاري

    20


    تحرير کي ترار بنايون بچي پئون


    تحرير کي ترار بنايون بچي پئون
    ڪوڪار مان ڪٽار بنايون بچي پئون

    هِن جوءِ لئه هزار اٿي جانباز پيا
    هڪ هڪ منجھان هزار بنايون بچي پئون

    غدار پنهنجا دوست ٿين، ٿُڪ هڻي ڇڏيون
    جھونجھار پنهنجا يار بنايون بچي پئون

    پرمار لئه هار ک