Wednesday, June 15, 2016

چھاچھرو کیا کہتا ہے

مور کبھی نہیں مرتے
تپتے ہوئے صحرا میں جلتے ہوئے سگرٹ سے کش لگاتے ہوئے جب ایک امپورٹڈ صحافی نے صحرائے تھر میں کارونجھر پہاڑ کے پاس کھڑے پاک بھارت سرحد کی طرف اشارہ کرتے ایک عام سے تھری سے پوچھا کہ ’’سنو! یہ مور کہاں سے آتے ہیں؟‘‘ تب اس کے ریگستان جیسے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک بونڈ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا ’’صاحب! مور تو اس نیلے آسمان سے آتے ہیں۔ جس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی‘‘فقیروں جیسے لباس میں کھڑے ایک اہل صحرا کا فلسفیانہ جواب سن کراس صحافی کو مسکرانا چائیے تھا مگر وہ خاموش رہا! جب کہ ریت کے بہت بلند ٹیلوں کو ہر پل ایک نئی صورت دینے والی صحرائی ہوا چلتی رہی۔قدرت کے ایک وسیع کینواس پر نت نئے نقوش بنتے اور مٹتے رہے۔ تھر کے پرندے بادلوں کو بلاتے رہے۔ اور کہیں دور سے وہ مور چلاتے رہے جو کبھی تھر کے فطرت پرست انسانوں کی نظر میں دیوتا ؤں کا رتبہ رکھتے تھے مگر اب این جی اوز کا پراجیکٹ بن گئے ہیں اور موروں کے تحفظ کے خاطر پروپوزل پیش کرنے والی این جی اوز اب صحرائے تھر کے کچھ صحافیوں کے معرفت موروں کے مرنے کی خبریں فیڈ کر وا رہی ہیں ۔
اور ایک جھونپڑی کے آنگن میں سویا ہوا بچہ اپنی ماں سے پوچھ رہا ہے کہ ’’اماں! مور کیوں مرجاتے ہیں؟‘‘ تب کلچرل زنجیروں کے نام نہاد زیورات میں جکڑی ہوئی ایک صحرائی عورت اپنا پہلو تبدیل کرتے ہوئے اپنے بچے کو سینے سے لگاتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ ’’ساون! مور نہیں مرتے۔ کبھی نہیں۔ وہ تو ہم سے روٹھ جاتے ہیں اور پھر لوٹ کر آتے ہیں‘‘اور اس دوران اس کا مریض مرد جاگ جاتا ہے اور ’’بس اب سوجاؤ‘‘ کے حکم والے لہجے میں اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ ’’سکھاں! پانی دے‘‘
پانی؛ سکھاں؛ ساون؛ صحرائے تھر اور کارونجھر کی ایک چوٹی سے اڑ کر دوسری چوٹی پر بیٹھنے والے مور ! کیا کافی نہیں ہے اس تھر کے بیان کے لیے جو پیاس پیتا ہے۔ پیاسا جیتا ہے اور پیاسا مرجاتا ہے!! اسے تو سقراط کی طرح زہر کا پیالہ بھی نہیں مل پاتا۔
’’سچائی سلگتی ہوئی ہوئی ریت جیسی ہوا کرتی ہے‘‘ ایسے اشلوک بتانے والے وہ جین پروہت کہیں نہیں جن کی غفائیں اب ان مقبروں جیسی نظر آتی ہیں جن کے جنازے انسانوں کی طرح اغوا کیے گئے محسوس ہوا کرتا ہے اور ان قدیم مراقبت گاہوں کی سفید دیواروں پر اب نوجوان عاشق اپنی محبوباؤں کے نام کا پہلا حرف کندہ کرکے چلے جاتے ہیں اور چاندنی ایک مہربان نرس کی طرح اس صحرا کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے جو دن بھر سورج سے لڑتا رہتا ہے اور رات کوایک سپاہی کے مانند جاگتی ہوئی نیند سوتا ہے۔اس صحرا کے ایک شہر ’’چھاچھرو‘‘ کے حوالے سے ایاز نے پوری سندھ سے پوچھا تھا کہ’’کیا سوچ رہا ہے چھاچھرو؟‘‘ تب سندھ کے ہونٹ سل گئے تھے۔ مگر یہی سوال ہمارا شاعر کسی صحرا کے عام انسان سے پوچھتا تو وہ اسے پتے سے بنی ہوئی بیڑی پیتے ہوئے کہتا ’’سائیں چھاچھرو کیا سوچے گا؟ اس وقت جب لو چل رہی ہے۔ مور میگھ کے منتظر ہوں اور بارش کی نشانی سمجھے جانے والے پرندے بادلوں کو چیخ چیخ کر پکار رہے ہوں اور وہ سب اس بارش کو یہ کہہ کر بلا رہے ہوں کہ تیرے بادل تو ہم بھول گئے ہیں۔تیرے وہ بادل جو ان ممالک پر برستے ہیں جہاں سیلاب آجاتے ہیں۔ اب انہیں یہاں بھی بھیجو۔ یہاں جہاں پیاس ہے۔جہاں زندگی بوند بوند کو ترس رہی ہے۔ چھاچھرو بادلوں کے علاوہ اور کس کے بارے میں سوچ سکتا ہے؟‘‘بادل آجائیں تو تھر حسن کا گھر ہوجائے اور اگر بادل نہ آئیں تو پھر تھر ایسا ہی رہے گا۔ جس میں قحط آنے کا خواب دیکھنے والیں گدھ جیسی این جی اوز راجاؤں اور مہا راجاؤں کے مانند چلتی ہیں۔ڈبل کیبن گاڑیوں میں منرل واٹر کی بوتلیں بھر کر چلنے والیں وہ این جی اوز کیا جانے کہ مور صرف بادلوں کے آنے پر نہیں ناچتے ۔ جب صحرا میں رات کسی خوابیدہ حسینہ کی صورت بکھر جاتی ہے تب بھی مور اپنے پر پھیلا اس طرح ناچنے لگتے ہیں جس طرح زندگی کے آخری ایام میں دیوانہ بن جانے والا پولش رقاص نجنسکی ناچتا تھا۔مگر ادب اور دانش کے ماڈرن عشاق نجنسکی کی پہلی اور آخری کتاب ’’ڈائری آف میڈ مین‘‘ تو پڑھتے ہیں مگر اس مور کے رقص میں نجنسکی کو تلاش نہیں کرتے جو مور ناچنے کے بعد رونے لگتا ہے اور کہتے ہیں کہ اس کی مادہ اس کے وہ آنسو صحرا کی ریت پر گرنے سے قبل پی لیتی ہے۔ اور ان آنسوؤں سے ایک اور مور جنم لیتا ہے!!
جب عقل لاحاصل عشق بن جاتی ہے تب عقیدے کا جنم ہوا کرتا ہے۔ اور عقیدے کا اصرار ہے کہ ’’مور نہیں مرسکتے۔ اگر مور مرگئے تو تھر کبھی نہیں بچے گا۔ اس لیے اپنے لیے نہیں بلکہ تھر کے لیے ان موروں کو جینا ہوگا جو انہیں وہ سکھ نہیں دے سکتا جو چڑیا گھر کے سلاخوں کے پیچھے ان موروں کو ملتا ہے جو قیدی ہوا کرتے ہیں۔جن کی وقت پر ویکسی نیشن ہوا کرتی ہے۔جنہیں صحت بخش خوراک ملتی ہے۔ جو لمبی عمر جیتے ہیں اور پھر بوڑھے قیدیوں کی طرح سلاخوں کے پیچھے مر جاتے ہیں۔عقیدہ اس لیے پرسکون ہوا کرتا ہے کیوں کہ وہ یہ بات دل سے مان کر چلتا ہے کہ ’’آزادی کی موت غلامی کی زندگی سے بہتر ہوا کرتی ہے‘‘ مگر این جی اوز شہروں کے چڑیا اور گڑیا گھروں میں قید موروں کی آزادی کے لیے آواز نہیں اٹھاتیں۔ انہیں صرف ان موروں کی فکر لاحق ہے جن کے بارے میں اہلیان تھر سمجھتے ہیں کہ یہ نیلے آسمان سے آتے ہیں اور نیلے آسمان میں چلے جاتے ہیں اور پھر نیلے آسمان سے لوٹ آتے ہیں۔جو لوگ عقیدے کے اعتبار سے یہ سوچتے ہوں کہ وہ موروں کے دم سے زندہ ہیں انہیں موروں میں پھیلی ہوئی وبا کے بارے میں کوئی فکر کیوں ہوگی؟
وہ مور جن کا احترام تھر کے سارے لوگ کیا کرتے تھے۔ اب تو انہیں بھوکے انسان بھون کرکھاجاتے ہیں مگر ایک وقت ایسا بھی تھا جب مور آزاد پرندوں کی صورت اہلیان تھر کے گھروں پر اترتے تھے اور جس صحرائی گاؤں میں ان کا بسیرا ہوا کرتا تھا اس گاؤں کے لوگ انہیں اپنا مہمان تصور کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ٹھاکر جو اب تھر میں نہیں بستے وہ موروں کی خوشی کے ساتھ خدمت کیا کرتے تھے۔ مگر اب تھر میں گھس آنے والے لوگوں نے صحرا کے ہر حسن کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے اور این جی اوز کے معرفت چل نکلنے والی یہ مہم تھر کے موروں کوبچانے کے بجائے انہیں ماضی کی مورت بنا کر چھوڑے گی۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ موروں کو بچانے کے لیے میڈیا میں ایک مہم شروع کرنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے صحرا کے ان انسانوں کو بچانے کی کوشش کرنا جو بچے گئے تو پھر مور کبھی نہیں مریں گے۔کیوں کہ مور انہیں اس لیے عزیز نہیں کہ وہ ڈالر کمانے کا ذریعہ ہیں۔ مور ان لوگوں کو اس لیے پیارے ہیں کیوں کہ وہ مور ہیں!! وہ مور جن سے محبت کرتے ہوئے مائیں اپنے بچوں کے نام ’’مور‘‘ رکھتی ہیں۔ اور شادی بیاہ کے سادہ فنکشنس میں جست کے تھال کو ڈھول بنا کر بجاتی ہیں اور یہ لوک گیت گاتی ہیں کہ:
’’اے مور !
میرا دل میرے اپنوں کے ساتھ جڑ ا ہوا ہے
اے مور دعا کرو!
میرے خالی جھولے میں
میرے بیٹے جھولیں
اور میری ماٹی ہمیشہ دودھ سے بھری رہے!!‘‘
ایک تو یہ مور صدیوں سے فطرت کے بدلتے ہوئے تیوروں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ رکھتے ہیں اور دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ ان موروں کا ہمیشہ سے تحفظ کرتے آئے ہیں وہ لوگ جو اب سنگین حالات کی وجہ سے اپنا تحفظ نہیں کرسکتے۔مگر کیا یہ بات سمجھ آسکتی ہے ان انسانوں کو جو نہیں سمجھتے کہ مور تو ایک ایسا پھول ہے جو تھر کے درخت کی شاخوں پر کھلتا ہے۔ اس پھول کو تحفظ صرف اس صورت میں مل سکتا ہے اگر وہ درخت سلامت رہے جس کا نام تھر ہے۔وہ تھر جو جہنم بن گیا ہے ان اہلیان تھر کے لیے جو رقم ہونے والی تاریخ سے بھی قبل بسا کرتے ہیں اس تھر میں جو ان کے آباؤ اجداد سے لیکر ان تک ایک تحفظ کی دیوار کی صورت موجود رہتا آیا ہے۔ جس طرح سکھ بھرے حالات غاصب قوتوں کو دراندازی کی دعوت دیتے ہیں اسی طرح دکھ بھرے حالات انہیں ایسے حملوں سے دور رکھا کرتے ہیں۔ اس لیے تھر کی تاریخ کے وجود پر غیر حملہ آوروں کے زخم نہیں ہیں مگر تھر جدید دور میں دکھوں کی بستی بن گیا ہے۔ جس تھر کو صحرائی طوفان کچھ نہیں کرپائے اس تھر کو جدید دور نے دفن کردیا ہے۔
اور یہ این جی اوز اس مذار تھر کی مجاور ہونے کی کوشش میں مصروف ہیں جس تھر کو کی ریت کا ہر ذرہ محبت کا وعدہ بن کر چمکتا ہے۔ جس تھر میں موروں کو کمائی کا ذریعہ نہیں بلکہ محترم محبت کی عظیم علامت سمجھا جاتا ہے۔ جس تھر کے کسی گمنام عوامی شاعر نے تھری زبان میں یہ شعر لکھا تھا کہ:
’’کارونجھر دی کور مریں تے ماگہیں نہیں
متھان ٹہونکے مور تہ ڈونگر لاگے ڈیپتو‘‘
یعنی: ’’ اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس کارونجھر پہاڑ کو مت چھوڑنا
جس پر کھڑا مور جب کوکتا ہے تب پورا پہاڑ چراغ کی مانند روشن ہوجاتا ہے‘‘
ایسے تھر میں کو صرف موروں کی مقتل بنا کر پیش کیے جانے والی یہ حساس صحافت آخر موروں کا کیس اٹھا کر اس تھر کے کیس پر پردہ کیوں ڈال رہی ہیں جس تھر کے باسی بہت دکھی ہیں۔ جو اہلیان تھر اس طرح جی رہے ہیں جس طرح کوئی زنجیروں میں جکڑا ہوا قیدی جینے کی کوشش کرتا ہے۔اور کوئی بھی سرزمین اپنے طور کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کو شناخت دیتے ہیں ان میں بسنے والے!
اس لیے تھر صحرا نہیں بلکہ صحرا نشین ہیں۔ وہ ساری قوتیں جو موروں کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں وہ اگر اہلیان صحرا کے دکھ دور کرنے میں مصروف عمل ہوجائے تو مور خودبخود خوش ہوجائیں گے!!۔
مگر ان نیم طبیبوں جیسے سیاسی حکیموں کو کون سمجھائے کہ پھولوں کا تحفظ تب ہی ممکن ہے جب درخت مضبوط اور صحتمند ہو۔ اس لیے موروں کو نہیں بلکہ ان انسانوں کی مدد کریں جو صدیوں سے موروں کا تحفظ کرتے آئے ہیں۔ جن کے لیے مور پرندہ نہیں بلکہ ایک ایسے پیار کا مظہر ہے جس پیار اورمیں پوجا میں کوئی فرق نہیں ہوا کرتا۔
اس لیے موروں کے موت پر ماتم کرنے والی میڈیا سے صرف اتنی التماس ہے کہ وہ ان اہلیان تھر کی زندگی میں بہتری لانے کے سلسلے میں آواز بلند کرے جو موروں کے اصل محافظ ہیں۔ اگر وہ لوگ بچ گئے تو مور نہیں مریں گے۔ صرف روٹھ جایا کریں گے اور روٹھنے کے بعد خود ہی واپس آجایا کریں گے۔ اس عقیدے کو بچانے کے لیے جس کی شاخ پر عقل کا پھل بھلے پیدا نہ ہو لیکن اس پر عشق کا پھول ضرور کھلتا ہے!!

No comments:

Post a Comment